گھریلو حادثات سے بچائو :- محترم قارئین کرام آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا نقوی کا سلام پہنچے ہر چند آج کا موضوع ایسا عجیب ہے جس کو پڑھ کر ہر انسان سوچ میں مبتلا ہوجاتا ہے بھلا گھریلو حادثات سے ہمارا کیا تعلق تو آپ کی اطلاع کو عرض کروں ہر انسان حادثے سے قبل یہی سمجھتا ہے وہ کبھی حادثے کا شکار نہیں ہوگا لیکن زندگی میں کبھی برا وقت آچکا ہو تو حادثہ انسانی زندگی کا حصہ ہے کچھ حادثات سے ہم خود کو بچا نہیں سکتے لیکن بروقت اور قبل از وقت احتیاطی تدابیر ہم کو حادثات سے بچنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں اس وجہ سے حادثے کا انتظار کیجئے بغیر ہی کچھ احتیاطی تدابیر اپنالی جائیں توہم شاید کچھ قیمتی جانیں بچا سکیں مندرجہ زیل کہانی نرجس کاظمی صاحبہ نے شیئر کی ہے جو ایک جھولے سے متعلق ہے اسکا استعمال گائوں میں عام دیکھا ہے چارپائیوں میں بچے کیلئے چادر باندھ کر جھولا بنایا جاتا ہے اور چھوٹے بچے کو اس میں لٹا دیا جاتا ہے پائوں کی مدد سے جھولا جھلانا آسان ہوتا ہے اس وجہ سے اسکا استعمال عام ہے ۔ چارپائی کیساتھ بندھی جھلونگی یا موت کا جھولا جھلونگی جہاں ہماری ثقافتی نشانی ہے، وہیں ماں کے لئے آسانی بھی سمجھی جاتی ہے لیکن شاید ہم نہیں جانتے کہ یہ کتنی خطرناک ہو سکتی ہے۔ میں (نرجس کاظمی)ایک آنکھوں دیکھا واقعہ شیئر کر رہی ہوں۔ اس دن میں اپنے گھر کے باغیچے میں کام میں مصروف تھی کہ اچانک کسی خاتون کے دردناک چیخنے چلانے کی آواز آئی۔ سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا ہوا ہے۔ میں نے گیٹ کھولا اور آواز کی سمت بڑھنا شروع کیا۔ وہ آواز مویشیوں کے اس ڈیرے سے آ رہی تھی جہاں میرے رشتہ دار بھی رہتے تھے۔ یہ میری پھپھو کی بیٹی کا ڈیرہ تھا۔ گیٹ کھلا تھا۔ میں اندر گئی تو دیکھا کہ میری پھپھو زاد بہن چارپائی پر پڑے ایک بچے کو دیکھ رہی تھیں اور ساتھ ہی ڈیرے پر کام کرنے والی خاتون بین کر رہی تھی۔میں نے گھبرا کر پوچھا “آپا کیا ہوا ہے؟” آپا نے دہشت زدہ چہرے کے ساتھ مجھے بلایا۔ میں بھاگ کر پہنچی تو دیکھا کہ چار ساڑھے چار سالہ بچہ بے جان چارپائی پر پڑا ہے دیکھنے سے ہی پتہ چل رہا تھا کہ بچہ فوت ہو چکا ہے۔ جسم پر نہ سانپ کے کاٹنے کا کوئی نشان تھا، نہ کوئی زخم، مگر بچے کی رنگت پیلی تھی، اور ہونٹوں پر پانی اور پھٹے دودھ کے ذرات چپکے ہوئے تھے۔ میں نے روتی ماں سے پوچھا کہ کیا بچے نے الٹی کی تھی؟ وہ بولی بچہ کافی دیر سے سو رہا تھا، میں کاموں میں مصروف تھی۔ جب نظر پڑی تو لگا کہ بچے کی رنگت بدل گئی ہے اور وہ حرکت نہیں کر رہا۔ میں نے اٹھایا تو منہ سے تھوڑی الٹی نکلی۔ وہی پانی اور پھٹے دودھ جیسے ذرات فرش پر پڑے نظر آ رہے تھے۔ میں سمجھ گئی کہ بچے نے نیند میں الٹی کی ہے لیکن چونکہ وہ گہری نیند میں تھا، گردن اُٹھ نہ سکی۔ جھکی ہوئی گردن کی پوزیشن میں زور سے آنے والی الٹی سیدھی سانس کی نالی میں گئی اور پھیپھڑوں میں بھر گئی۔ اسے aspiration کہتے ہیں، اور یہ چند لمحوں میں موت کا سبب بن سکتا ہے۔ افسوس کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ واقعہ انتہائی دردناک تھا مگر میرے لئے اچھنبے کی بات تھی کہ کیا معمولی سی مگر بہت فائدہ مند جھلونگی ایسے بچے کی جان بھی لے سکتی ہے ۔ نیچے اس موضوع سے متعلق اہم طبی معلومات بھی شامل ہیں۔ چارپائی کے ساتھ بندھی بچوں کی جھلونگی دیکھنے میں تو آسان اور آرام دہ لگتی ہے لیکن حقیقت میں یہ نوزائیدہ بچوں کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔ میں نے خود جھلونگی میں ایک بچے کی موت ہوتے دیکھی ہے اور اس کے بعد کبھی کسی کو یہ جھولا استعمال کرنے کا مشورہ نہیں دیا۔ جھلونگی میں بچے کو رکھا جاتا ہے تو اکثر اس کی ٹھوڑی نیچے جھک کر سینے سے لگ جاتی ہے۔ اس پوزیشن میں بچہ آہستہ آہستہ سانس نہیں لے پاتا اور بغیر کسی آواز کے اس کا سانس بند ہو سکتا ہے۔ یہ ایک خاموش موت ہے جسے دیکھنے والا سمجھتا رہتا ہے کہ شاید بچہ سو رہا ہے۔ ایک اور خطرہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب بچہ گہری نیند میں الٹی کر دے۔ چونکہ جھلونگی میں بچے کا سر ایک طرف جھک جاتا ہے اور کپڑا اردگرد ہوتا ہے، اس لیے الٹی سیدھی پھیپھڑوں میں چلی جاتی ہے جسے اسپائریشن کہا جاتا ہے۔ یہ چند لمحوں میں بچے کی جان لے سکتا ہے۔ دنیا بھر میں نرم، لٹکے ہوئے جھولوں کو نوزائیدہ بچوں کی نیند کے لیے غیر محفوظ قرار دیا جاتا ہے۔ WHO، UNICEF اور عالمی پیڈیاٹرک گائیڈ لائنز کے مطابق soft hammocks، کپڑے کے جھولے، hanging cradles بچوں کے لیے خطرناک ہیں۔ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، کینیڈا، امریکا اور یورپ کے کئی ممالک میں یہ جھولے یا تو بین ہیں یا سخت وارننگ کے ساتھ فروخت ہوتے ہیں۔ اسی لیے بہتر یہ ہے کہ بچے کو ہمیشہ سیدھی، سخت سطح پر، پیٹھ کے بل، چہرہ کھلا رکھ کر سلایا جائے اور اس کے آس پاس کوئی ایسا کپڑا نہ ہو جو سانس کی راہ میں رکاوٹ بنے۔ جھلونگی آرام دہ ضرور لگتی ہے مگر ایک لمحے کی غفلت جان لے سکتی ہے۔ محفوظ طریقہ ہمیشہ وہی ہے جو دنیا بھر کے ماہرین تسلیم کرتے ہیں۔ محترم قارئین کرام چھوٹی احتیاطی تدابیر کسی بڑے حادثے سے بچائو کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں ان کو عادت بنالیں مثلا میں نے مشاھدہ کیا میری نانی اماں مرحومہ ( اللہ انکے درجات بلند فرمائے ) ہمیشہ گھر سے نکلتے وقت گیس کی چابی ( والو)بند کرکے جاتیں غیر ضروری لائٹیں کمروں میں بند رہتیں جس کمرے میں آپ جائیں وہاں لائٹ نکالیں اس زمانے میں بجلی سستی تھی سوائے بارشوں کے موسم یا کبھی پی ایم ٹی جل گء تو لائٹ جاتی وگرنہ لائٹ چوبیس گھنٹے آتی تھی نء نسل تو سمجھتی ہے شاہد لوڈ شیڈنگ لائٹ جانا ایک عام بات ہے یہ نظام کا حصہ ہے جبکہ یہ سچ نہیں ہے اس بچت کی وجہ سے بجلی کا لوڈ کم ہوتا قدرتی وسائل کا زمہ دارانہ استعمال کوء پرانی نسل آبا و اجداد سے پوچھے ہم اس سلسلے میں لاپرواہ ہوتے جارہے ہیں ۔۔۔ اگر موسم خراب ہے تو آپ باہر جانے کا ٹرپ کینسل کرسکتے ہیں گروسری کسی اور دن کرلیں ایک دو روز قبل کرلیں ضروری نہیں خراب موسم والے دن ہی باہر جائیں موسم کی خرابی سے روڈ پر پھسلن ہوتی ہے سڑک پر کھدے گڑھے پانی بھر جانے کی وجہ سے کء اسکوٹر سواروں اور کار سواروں کی موت کا سبب بن چکے ہیں جہاں حکومت لاپرواہ ہے وہیں عوام بھی زمہ داری کا ثبوت نہیں دیتے اور احتیاط نہیں کرتے ۔۔ اپنے گھروں میں اسموک الارم اور فائر الارم لگائیں کاربن مونو آکسائیڈ سے بہت سی جانیں جاچکی ہیں اس کا سدباب ایک ڈیٹیکٹر الارم ہے جو انسانی جان سے بڑھ کر نہیں لگادیا جائے یہ بے رنگ و بو قاتل گیس انسان کو ھلاک کردیتی ہے بس تھوڑی احتیاط کرلی جائے تو ان حادثات سے بچا جاسکتا ہے اور یہ عادت بچپن سے بڑے ڈالتے ہیں بچوں کو تنبیہ کرتے ہیں ان سے سوال کرتے ہیں تو وہ عادی ہوجاتے ہیں حادثے سے بہتر ہے اسکا سدباب پہلے سے موجود ہو تو ممکنہ حادثہ ٹل سکتا ہے قیمتی جان بچ سکتی ہے اس وجہ سے قارئین کرام زندگی کی قدر فرمائیں یہ قیمتی ہے یہ مختصر ہے اور یہ اچھی زندگی پل بھر میں عزاب بن سکتی ہے اور اسکا چراغ بجھ سکتا ہے اگر سمجھداری سے اور حکمت و دانشمندی سے کام نہ لیا لاپرواہی برتی ۔۔ میری دعا ہے اللہ پاک سب انسانوں کی محافظت فرمائیں ان کو اس قابل بنائیں کہ وہ قبل از وقت احتیاطی تدابیر کرکے کسی بھی حادثے سے خود کو اور فیملی کو محفوظ رکھ سکیں خیر اندیش سید کاظم رضا نقوی نومبر سنہ
٭٭٭














