”اساتذہ
اور طالب علم”
امریکہ میں گوناں گوں مصروفیات نے لوگوں کو یوں گھیرا ہوا ہے کے وہ کبھی کبھا ان میں الجھ کر اپنی فیملی کو ہی نظر انداز کردیئے ہیں۔ ہم لوگ یہ کہتے ہیں کے امریکہ میں کام بہت ہے وقت نہیں ملتا کے اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھیں اور ان کو خوشی دیں ان کے مسائل نہیں اپنے مسائل بتائیں یہ صرف ہم دیسیوں کا ہی مسئلہ نہیں ہے عام امریکن گھرانوں کا مسئلہ ہے۔ اسی لئے یہاں سکول میں ان بچوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ جو بہت ہی بدتمیز، کام چور اور بڑوں کی عزت نہ کرنے والے ہیں سکول بھی ان بچوں کی ہمت افزائی کرتے ہیں۔ ٹیچر کو کوئی حق نہیں ہے کے وہ کسی بچے کو ڈانٹنے ان کو امتحان میں فیل کرے یا ان کو ٹیڑھی نظر سے دیکھ سکے۔ یہاں تو ہم والدین کی مصروفیات اور بچوں کے سکولوں میں حقوق دیکھ کر حیرت زدہ ہوتے ہیں۔ مگر ہمارے ملک میں اس سے برعکس معاملہ ہے۔ وہاں والدین کے پاس فرصت ہے اور وہ بچوں پر توبہ بھی دے سکتے ہیں مگر وہ سکول ٹیچر پہ بھروسہ کرکے بچوں کو ان کے حوالے کرکے بہت مطمئن ہو جاتے ہیں اور سکول ٹیچرز کا یہ حال ہے کے وہ بچوں کو اپنے فرسٹریشن کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ یہ ان سکولوں کی بات کررہی ہوں جہاں عوام گھرانوں کے لوگ اپنے بچوں کو بھتیجے ہیں جو کے ہم گورنمنٹ کے سکول کہتے ہیں ایک زمانہ تھا یہ سکول بہت بہترین تھے اور اچھے کھاتے پیتے گھرانوں کے لوگ وہاں اپنے بچوں کو بھتیجے تھے۔ مگر ٹیچران بچوں کے ساتھ عجیب وغریب سلوک کرتے تھے۔ مارنا تو بہت عام سی بات تھی اگر کسی بچے نے صحیح جواب نہیں دیا تو اس کو ٹیچر کا تھپڑ گال پر پڑتا تھا۔ مگر طعنہ دینا ٹیچروں کی عام تھی۔ اگر کوئی لڑکی کھیلنے میں اچھی ہے اور سائنس میں اچھی نہیں ہے تو ٹیچر بہت طعنے دیتی تھیں تم تو بس کھیل کود میں ہی رہو حالانکہ وہ لڑکی سکول کا نام ہی روشن کر رہی ہوتی تھی۔ بچوں کو پینل سے انگلیاں دبانا۔ پر کاپیاں مارنا، کلاس میں لنچ پر کھڑا کرنا عام رحجانا تھا۔ کچھ بچے گھر میں بھی نظر انداز ہوتے تھے اور سکولوں میں بھی ٹیچر سے مار کھاتے تھے یوں ان کا دل پڑھائی سے بالکل اچاٹ ہو جاتا تھا وہ سکولوں سے بھاگتے تھے گھر سے جھوٹ بول کر سکول کے بہانے کہیں اور پھر رہے ہوتے۔ لڑکیاں جلد سے جلد سکول سے نجات پانے کے بہانے ڈھونڈ تھیں ان کا دل چاہتا وہ فرار حاصل کریں۔اپنے گھر بسائیں اور سکول سے نجات ہو بہت سے بچے سکول کے خوف سے گھر سے ہی بھاگ گئے۔ یوں ہم مانیں یا نہ مانیں جاہں استادوں کا مقام بہت اونچا ہے انہوں نے لوگوں کو پڑھا لکھا کر بڑے عہدوں تک پہنچایا وہیں جاہل اور نفسیاتی قسم کے ٹیچروں نے بچوں کی زندگی تباہ کردی اچھے خاصے ہونہار بچے گھروں سے بھاگ کر چائے بیچنے لگے مجرم بن گئے۔ ہمارے ملک میں شاید شہروں میں کچھ بدل گیا ہو مگر مجھے یقین ہے کہ وہ بچے جو کسی پرائیویٹ سکول میں نہیں جا پائے ہوں گے اب بھی اساتذہ کے ظلم کا شکار ہوں گے اور والدین اب بھی آنکھیں بند کرکے بچوں کو سکول بھتیجے ہوں گے۔ امریکہ میں اساتذہ کی جگہ طالبعلم کے حقوق بڑھا دیئے گئے ہیں یوں سکول میں بچے ان کی وہ عزت نہیں کرتے جس کے وہ مستحق ہیں۔
اور ہمارے ملک میں اساتذہ کو اتنا اونچا مقام دے دیاگیا ہے کے وہ بچوں کے ساتھ جو چاہے سلوک کریں۔ یوں وہ بچوں کی طالب علموں کی وہ عزت نہیں کرتے جس کے وہ مستحق ہیں دونوں جگہوں پر طالب علمی نظام بدلنے کی ضرورت ہے۔ کہیں اساتذہ خوش نہیں ہیں اور کہیں طالب علم خوش نہیں ہیں۔
عزت حاصل کرنا ہر ایک کا حق ہے چاہے وہ ٹیچر ہو یا طالب علم۔
٭٭٭٭٭٭












