ایک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر !!!

0
12

قدیم تاریخ کے تجزیات کے مطابق، تقریبا بارہ ہزار سال پہلے، برِاعظم ایشیا کے رہنے والے، سائبیریا اور الاسکا کے راستے، شمالی اور جنوبی امریکہ کے علاقوں میں آ بسے تھے۔ دشوار گزار راستے طے کرکے نئی دنیا بسانے والے یہ لوگ انتہائی جفاکش، بہادر، باہمت اور مہذب تھے۔ اپنے زمانے کے لحاظ سے انہیں ترقی یافتہ سمجھا جاتا تھا۔ کھیتی باڑی اور شکار کے ماہر تھے۔ یورپی گوروں سے بہت پہلے ہی وہ زراعت، معیشت اور معاشرت کے لازوال اصول بنا چکے تھے۔ تجارت کیلئے، وہ لوگ طویل سفر کو آسان بنانے کے بھی کئی طریقے ایجاد کر چکے تھے۔ ان کے بنائے ہوئے راستوں پر ہی بعد میں کئی تاریخی ہائی وے بنائے گئے ہیں۔ امیر مینائی کے اس شعر سے متاثر ہوکر ہم آج تھینکس گیونگ کے موقع پر، ان قدیم امریکیوں کی حالتِ زار کا ذکر کرنا چاہتے ہیں۔
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرسارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے مقامی امریکیوں کے زوال کا دور اس وقت شروع ہوا جب یورپ کیلوگ، اس سرزمینِ امن و امان تک پہنچے۔ سب سے پہلے تو یہ یورپی لوگ اپنے ساتھ چیچک اور دیگر وبائی امراض لے آئے۔ اس کے بعد جنگی سازو سامان اور پھر غلامی کے ظالمانہ نظام کے ذریعے پرامن مقامی امریکیوں کی فیصد آبادی کم کردی۔ بقایا فیصد پر نہ ختم ہونے والے مظالم کی وجہ سے بھی یہ مقامی آبادی آج تک زیرِ عتاب سمجھی جاتی ہے۔ میں فورسڈ ریمورل ایکٹ کے ذریعے مقامی امریکیوں کو انکے آبا و اجداد کی بہت ساری زمینوں سے بے دخل کر دیا گیا۔ تعلیمی نظام کی بے رحمانہ پالیسیوں کے ذریعے ان کی مادری زبانوں پر پابندی لگا دی گئی۔ اس سب کے ساتھ ساتھ، مختلف تنازعات کے ذریعے، اس مقامی امریکی آبادی کو اتنی ذلت سے دوچار کر دیا گیا کہ وہ اپنا تشخص لے کر دور دراز کے جنگلوں تک ہی محدود ہو کر رہ گئی۔ علامہ اقبال کا یہ شعر یہاں بالکل صادق آتا ہے۔
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
یورپ سے آنے والوں اور مقامی امریکی آبادی کے درمیان ہونے والے قدیم تاریخی معاملات کا ذکر تو اب بہت کم کیا جاتا ہے لیکن جدید دور کی امریکی حکومت نے اس مقامی آبادی کے ساتھ مختلف معاہدے توڑنے کی جو مثالیں قائم کی ہیں، ان پر کہیں نہ کہیں احتجاج ہوتا نظر آجاتا ہے۔ ان معاہدوں کے توڑنے کی سب سے بڑی وجہ انکی زمینوں پر ناجائز قبضہ کرنا ہے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ امریکی حکومتوں کا مقامی امریکی آبادی کی زمینوں پر قبضہ کرنے کا عمل، اسرائیل کا فلسطینوں کی زمینوں پر قابض ہونے سے بڑی مماثلت رکھتا ہے۔ دو برِاعظموں پر رہنے والے مقامی امریکی، آج ان چند کھلی جیلوں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں، جنہیں انڈین ریزرویشن کہا جاتا ہے۔ اس سارے ظلم کے باوجود، فلسطین اور مقامی امریکی کے بارے میں، پوری دنیا کی رائے عامہ، بدل رہی ہے۔ ساحر لدھیانوی کے الفاظ میں!
سازشیں لاکھ اڑاتی رہیں ظلمت کی نقاب
لے کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ
آج کل مقامی امریکی آبادی، اپنی پرانی اور اصل تہذیب و تمدن کو اپنانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اپنی کھوئی ہوئی عظمت و عزت حاصل کرنے کیلئے، ان کی ایک بڑی تحریک اپنی آبائی قبائلی زبانوں کو نئی نسل تک پہنچانے اور سکھانے کی ہے۔ قبائلی روایات کو دوبارہ اجاگر کرکے وہ ماضی کے سہے ہوئے صدموں سے بھی نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ساتھ ساتھ وہ اپنی خود ارادی اور خود مختاری کی حفاظت کرنے کا کام بھی کر رہے ہیں۔ مقامی امریکیوں کے بارے میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا رویہ ہمیشہ ظالمانہ رہا ہے۔ تک تو امریکی ریاستوں کی بڑی تعداد نے انہیں ووٹ کا حق بھی نہیں دیا تھا۔ حالانکہ انکی امریکی شہریت کو میں تسلیم کر لیا گیا تھا۔ اسی طرح میں انہیں قبائلی خودمختاری ملی، جس کے نتیجے میں یہ لوگ اب اپنے علاقوں پر خود حکومت کر سکتے ہیں۔ امریکہ بہادر نے اپنی شہنشاہی کے زعم میں، یہاں کے اصلی اور مقامی باشندوں کی جس طرح نسل کشی کی ہے، اس کی مثال انسانی تاریخ میں ملنا بہت مشکل ہے۔ آج اسرائیل بھی امریکہ کی مدد سے فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ امید ہے کہ آج کی جدید دنیا، اس ظالمانہ اور جابرانہ عمل کو روکے گی۔ بقولِ ارشد چوہدری،
حق تمہارا ہی نہیں ہم پہ حکومت کرنا
اب مقدر میں ہمارے ہی حکومت ہو گی
ہر سال امریکہ میں رہنے والے یورپی نسلوں کیلوگ جب نومبر کے آخری دنوں میں مقامی امریکیوں سے متعلق Thanksgiving کا تہوار مناتے ہوئے، اپنے بارے میں ایک Soft Image کو اجاگر کر رہے ہوتے ہیں تو مجھے انکی منافقت پر بہت افسوس ہورہا ہوتا ہے۔ بقولِ ساحر لدھیانوی،
دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنے قریب سے
چہرے تمام لگنے لگے ہیں عجیب سے
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here