فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
41

فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

محترم قارئین! غیبت یعنی چغلی بہت برُی چیز ہے، اسلام میں اس سے سختی سے منع فرمایا گیا ہے اور چغلی کرنے والوں کے لئے سخت وعیدیں بھی سنائی گئی ہیں بلکہ خداوند قدوس نے قرآن مجید میں غیبت کی مذمت کرتے ہوئے غیبت کرنے والوں کو مردار کا گوشت کھانے والے کہا ہے چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے: ترجمعہ: اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو، کیا تم میں سے کوئی پسند رکھے گا کہ اپنے مرے بھائی کا گوشت کھائے تو یہ تمہیں گوارانہ ہوگا(پارہ نمبر26 سورہ حجرات آیت نمبر12) فرمان نبی کریم ۖ ہے کہ ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام ہے ارشاد نبوی ہے کہ اپنے آپ کو غیبت سے بچائو کیونکہ غیبت زنا سے بدتر ہے۔ کیونکہ زانی گناہ کے بعد توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ قبول کر لیتا ہے مگر غیبت کا گناہ اس وقت تک معاف نہیں ہوتا جب تک کہ جس کی غیبت کی جائے وہ معاف نہ کردے۔ بزرگوں کا قول ہے کہ غیبت کرنے والے کی مثال اس شخص جیسی ہے جس نے ایک منجنیق لگائی اور وہ اس منجنیق کے ذریعے دائیں بائیں نیکیاں پھینک رہا ہے حضورۖ کا ارشاد ہے جو کسی مسلمان کی برائی چاہتے ہوئے غیبت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے یوم قیامت جہنمّ کے پل پر اس وقت تک کھڑا کرے گا کہ جو کچھ اس نے کہا تھا نکل جائے۔ فرمان رسول کریم ۖ ہے:غیبت یہ ہے کہ تو اپنے بھائی کی اس چیز کا ذکر کرے جسے وہ ناپسند پسند کرتا ہے خواہ اس کے بدن کا کوئی عیب ہو، نسب کا عیب ہو، اس کے قول وفعل یا دین ودنیا کا عیب ہو۔ یہاں تک کہ اس کے کپڑوں یاسواری میں بھی کوئی عیب نکالے تو یہ غیبت ہوگی۔ بعض متقدمین کا قول ہے کہ: یہ کہنا بھی کہ یہ کپڑا لمبایا چھوٹا ہے، غیبت ہے چہ جائیکہ اس کی ذات کے نقص گنے جائیں۔ ایک چھوٹے قد کی عورت کیسی کام کے لئے حضور علیہ السّلام کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ جب وہ واپس چلی گئی تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے کہا: اس کا قد کتن چھوٹا تھا؟ آپ نے فرمایا: عائشہ! تم نے اس کی غیبت کی ہے: حضورۖ کا ارشاد گرامی قدر ہے: اپنے آپ کو غیبت سے بچائو: کیونکہ اس میں تین مصیبتیں ہیں غیبت کرنے والے کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ اس کی نیکیاں نامقبول ہوتی ہیں۔ اور اس پر گناہوں کی پورش یعنی یلغار ہوتی ہے۔ حضورۖ ارشاد فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن بدترین آدمی دو چہروں والا چغلغور ہوگا جو آپ کے پاس اور چہرہ لے کر آتا ہے، دوسرے کے پاس اور چہرہ لے کر جاتا ہے اور فرمایا جو دنیا میں چغلخوری کرتا ہے، قیامت کے دن طرف لے گئے تو وہاں منصور نے شبلی کو دیکھ کر کہا:شبلی! محبت کی ابتداء جلنا اور انتہا قتل ہوجاتا ہے۔ جب منصور رضی اللہ عنہ کی نگاہ حق بین نے اس حقیقت کو پہچان لیا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا ہر چیز باطل ہے اور ذات الٰہی ہی حق ہے۔ تو وہ اپنے نام تک کو بھول گئے۔ لہذا جب ان سے سوال کیا گیا کہ تمہارا نام کیا ہے؟ تو جواب دیا کہ میں حق ہوں یعنی اناالحق۔ ”منتھیٰ” میں ہے کہ محبت کا صدق تین چیزوں میں ظاہر ہوتا ہے، محب محبوب کی باتوں کو سب سے اچھا سمجھتا ہے، اس کی مجلس کو تمام مجالس سے بہتر جانتا ہے اور اس کی رضا کو اوروں کی رضا پر ترجیح دیتا ہے۔ کہتے ہیں کہ عشق پردہ دری کرنے والا اور رازوں کو افشاں کرنے والا ہے اور وجد ذکر کی” شیرینی” کے وقت روح کا غلبہ شوق کا بھار اٹھانے سے عاجز ہو جاتا ہے یہاں تک کہ اگر وجد کی حالت میں انسان کا کوئی عضو بھی کاٹ لیا جائے تو اسے محسوس تک نہیں ہوگا، ایک آدمی دریائے فرات کے کنارے نہا رہا تھا: اس نے سنا کہ کوئی شخص یہ آیت پڑھ رہا ہے: وَامتَازُواالیّومَ ایُّھَا المُجرِمُونَ اور آج الگ پھٹ جائو اے مجرمو!” یہ سنتے ہی وہ تڑپنے لگا اور ڈوب کر مر گیا۔ محمد بن عبداللہ بغدادی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے بصرہ میں ایک بلند مقام پر کھڑے ہوئے ایک نوجوان کو دیکھا جو لوگوں سے کہہ رہا تھا کہ جو عاشقوں کی موت مرنا چاہے اسے اس طرح مرنا چاہئے(کیونکہ عشق میں موت کے بغیر کوئی لطف نہیں) اتنا کہا اور خود کو وہاں سے گرا دیا۔ لوگوں نے جب اسے اٹھایا تو وہ دم توڑ چکا تھا۔ حضرت جنید بغدادی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ تصوف اپنی پسند کو ترک کر دینے کا نام ہے ایک شیخ سے عاشق کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: عاشق میل ملاپ سے دور، تنہائی پسند، غوروفکر میں ڈوبا ہوا اور چپ چاپ رہتا ہے۔ جب اسے دیکھا جائے توہ نظر نہیں آتا جب بلایا جائے تو سنتا نہیں، جب بات کی جائے تو سمجھتا نہیں اور جب اس پر کوئی مصیبت آجائے تو غمگین نہیں ہوتا۔ وہ بھوک کی پرواہ اور برہنگی کا احساس نہیں رکھتا۔ کسی کی دھمکیوں سے مرغوب نہیں ہوتا بلکہ دھمکیوں میں لذت پاتا ہے وہ تنہائی میں اللہ تعالیٰ سے التجائیں کرتا ہے اس کی رحمت سے انس ومحبت رکھتا ہے۔ وہ دنیا کے لئے دنیا والوں سے نہیں جھگڑتا، ایک علامت یہ ہے کہ وہ اپنی تلخ آزمائش سے لطف اندوز ہوتا ہے اور محبوت جو کرتا ہے وہ اس پر خوش ہوتا ہے اور ایک علامت یہ ہے کہ تم اسے مسکراتا ہوا پائو گے اگرچہ اس کے دل میں محبوب کی طرف سے آگ سلگ رہی ہوتی ہے۔ بس اللہ پاک ہمیں حقائق کو سمجھ کر عمل کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here