آگ پر تیل نہیں، پانی ڈالاجائے!!!

0
2
جاوید رانا

ہم نے اپنے گزشتہ کالم منافرتوں کا کھیل ختم کیا جائے کا اختتام اس التماس پر کیا تھا کہ دونوں فریق اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں کہ ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی اور یکجہتی کا ذریعہ یہی ہے لیکن محسوس یہی ہوتا ہے کہ ہماری گزارش صدا بہ صحرا ہی ثابت ہو رہی ہے، راقم الحروف اس وقت پاکستان میں ہے، فی الحال فیصل آباد میں ہے اور جس وقت یہ کالم قارئین کے زیر مطالعہ آئیگا تو لاہور میں قیام ہوگا اور مختلف الجہت سیاسی اکابرین، میڈیا، حکومتی و دانشور حلقوں سے رابطوں کا سلسلہ دراز ر ہے گا، ہفتہ رفتہ کا اہم ترین واقعہ تو سابق ڈی جی آئی ایس آئی کو چودہ برس کی قید با مشقت کی سزا کا ہی ہے جس کی تفصیلات اور آئی ایس پی آر کی جاری کردہ جزئیات سے قارئین بخوبی واقف ہو چکے ہیں تاہم اس کے آخری پیرا گراف کے حوالے سے جو رد عمل حکومتی حلقوں، سیاسی اشرافیہ خصوصاً پی ٹی آئی، مبصرین اور تجزیہ کاروں کی جانب سے متضاد صورتوں میں آرہا ہے وہ کسی بھی طرح ملک و قوم اور سیاسی حوالے سے مناسب نہیں بلکہ جارحانہ رویوں کے سبب مزید انتشار و بحران کی تمہید ہو سکتا ہے۔ہم پہلے بھی اظہار کر چکے ہیں کہ وطن عزیز میں اقتدار کا کھیل طاقتوروں کی ہی میراث ہے اور اصولی و عوامی حکمرانی محض ایک ایسا کھیل ہے جو صرف آئین میں تو درج ہے لیکن مقتدرین کی مرضی و منشاء کے بغیر ناممکن ہے، پاکستان کی تاریخ اس حقیقت کی شاہد ہے کہ جوبھی سیاسی رہنما حکومت میں آئے مقتدرہ کی قبولیت سے آئے اور جب اسٹیبلشمنٹ سے فرنٹ ہوئے تو معزولی ان کا نصیب بنی۔ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ تین وزرائے اعظم کو دارفانی سے رخصت بھی کر دیا گیا، اس امر سے بھی انکار ہرگز نہیں کیا جا سکتا کہ منصوبہ بندوں کا اقتدار جب بھی رہا دس برسوں سے زیادہ ہی رہا، فی زمانہ بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں اور آئینی ترامیم و دیگر اقدامات اس بات کی نوید ہیں کہ موجودہ رجیم کا تسلسل بھی طوالت اختیار کریگا اور حکمرانی کا راستہ مقبولیت نہیں قبولیت سے ہی استوار رہیگا۔ حالات کا جائزہ لیتے ہوئے ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ فیض حمید ادارے کو مکمل طور سے کنٹرول کرنا چاہتے تھے اور انہوں نے خان کو یہ راستہ دکھایا کہ کس طرح ڈپلومیٹک سیٹ اپ کو اوپر نیچے کر کے حکمرانی کو طویل کیا جا سکتا ہے، مبصرین کے مطابق فیض حمید کا سازشی منصوبہ تھا کہ بعد ازاں وہ عمران کو بھی ہٹا کر طویل مدت کیلئے سیاہ و سفید کے مالک بن جائیں۔ موجودہ منظر نامے میں اس خدشے کا عندیہ دیا جارہا ہے کہ فیض حمید سلطانی گواہ بن کر نو مئی سمیت سارا ملبہ عمران خان پر ڈال دیں، دوسری جانب پی ٹی آئی میں انتشار و اختلافات کے مظاہر واضح نظر آرہے ہیں، گزشتہ دنوں تشکیل دی جانیوالی پولیٹیکل کمیٹی میں سے تحریک کے مخلص و بڑے افراد بشمول علی محمد خان، علی ظفر، عارف علوی، گنڈا پور، شہرام تراکئی سمیت کئی لوگ اس کمیٹی میں شامل نہیں جو عمران کے مخلص اور صحیح فیصلے کرنے والے شمار کئے جاتے ہیں حد یہ ہے کہ خان کے اولین ساتھی اور بزرگ سیاستدان قاضی انور نے بھی پی ٹی آئی کے تمام عہدوں سے استعفی دیدیا ہے، ادھر پاکستان بار کونسل کے الیکشن کا نتیجہ پی ٹی آئی کے حق میں نہیں آسکا ہے، خان کی قید اور آئندہ واقعات کے حوالے مقتدرہ کا بھونپو فیصل واوڈا جو پیشگوئیاں کر رہا ہے انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔حالات جس سمت جا رہے ہیں، دانشمندی کا تقاضہ ہے کہ خان اپنے روئیے، استدلال اور محاذ آرائی کی ضد چھوڑ کر اپنی سلامتی کا راستہ اپنائے، ہم جانتے ہیں کہ خان اپنے عزم و مقاصد میں مستحکم اور عوام کا محبوب ترین لیڈر ہے لیکن سیاست میں خصوصاً پاکستان کے ماحول میں سیاسی رنگ ایسے ہیں کہ اگر کوئی جان کی بازی بھی ہار جائے تو نہ صرف عوام اسے بُھلا دیتے ہیں بلکہ خود اس کے پیرو کار بھی دوسری راہیں اپناتے ہیں۔ وطن عزیز کی تاریخی شہادت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں ناپسندیدگی کا شکار ہونے پر سیاسی رہنمائوں نے مفاہمت اور مذاکرات کا راستہ اپنایا تو وہ دوبارہ منظور نظر ہوگئے شریف ہوں، بھٹو و زرداری یا دیگر خانوادے سب نے یہی راستہ اپنایا اور دشت سیادت میں اپنا کردار برقرار رکھا ہے، آزادی یا موت، کفن باندھ کر نکلنے اور محاذ آرائی کے دعوئوں سے حالات میں بہتری نہیں آسکتی ہے، واحد راستہ یہی ہے کہ تدبر اور فہم و فراست سے پُر امن حل کا راستہ اپنایا جائے، ہمارا یہ مطمع نظر نہ صرف خان سے ہمدردی میں ہے بلکہ ملک، عوام اور امن و خوشحالی کے ناطے بھی ہے، جلتی ہوئی آگ پر تیل نہیں پانی ڈالا جاتا ہے کہ وہ بھجائی جا سکے، ہماری مقتدرین و حکمرانوں سے بھی یہی التماس ہے!
٭٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here