قومی استحکام اور تقسیم پسند قوتیں!!!

0
3

پاکستان کی عسکری قیادت کی جانب سے بار بار اس عزم کا اظہار محض رسمی جملہ نہیں کہ ریاست اندرونی و بیرونی چیلنجز، انتہاپسندانہ نظریات اور قومی استحکام کو نقصان پہنچانے والی تقسیم پسند قوتوں سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف اور چیف آف ڈیفنس فورسز فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا گوجرانوالہ اور سیالکوٹ گیریژن کے دورہ کے موقع پر افسران اور جوانوں سے براہِ راست گفتگو اور سخت، مقصد پر مبنی تربیت پر زور دراصل اسی بڑے قومی سوال کی طرف اشارہ ہے کہ آج پاکستان کو اصل خطرہ کہاں سے ہے اور اس کا جواب صرف عسکری نہیں بلکہ سیاسی اور عوامی سطح پر کیسے دیا جانا چاہیے۔پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ قومی استحکام کو نقصان پہنچانیکا خطرہ کئی باراندر سے ابھرا، خیالات کی شکل میں، بیانیوں کی صورت میں اور ایسے سیاسی و سماجی رویوں میں ڈھل کر جو ریاستی اداروں پر اعتماد کو کمزور کرتے گئے۔ انتہاپسندانہ نظریات، چاہے وہ مذہبی لبادہ اوڑھے ہوں یا سیاسی جذباتیت کے نام پر پروان چڑھیں، معاشرے کو سوال کرنے کے بجائے تقسیم کا طریقہ سکھاتے ہیں۔ یہ نظریات دلیل کے بجائے نفرت، مکالمے کے بجائے الزام اور آئین کے بجائے ہجوم کی طاقت کو اصل فیصلہ کن عنصر بنا دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قومی وحدت ایک نعرہ رہ جاتی ہے اور عملی سطح پر قوم مختلف خانوں میں بٹ جاتی ہے۔ تقسیم پسند قوتوں کی ایک صورت وہ سیاسی روش ہے جس میں اقتدار کی جنگ کو قومی بقا پر ترجیح دی جاتی ہے۔ اختلافِ رائے جمہوریت کا حسن ہے، مگر جب اختلاف کو دشمنی، اداروں کو متنازع اور ریاست کو محض ایک فریق کے مفاد کا آلہ بنا کر پیش کیا جائے تو یہ سیاست نہیں بلکہ قومی استحکام کے لیے خطرہ بن جاتی ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں جھوٹ، آدھا سچ اور جذباتی بیانیہ چند گھنٹوں میں پورے معاشرے کو زہر آلود کر دیتا ہے۔ اداروں کے خلاف منظم مہمات، شہدا کی قربانیوں کو مشکوک بنانا اور ریاستی فیصلوں کو غداری و وفاداری کے سادہ خانوں میں بانٹ دینا اسی تقسیم کا تسلسل ہے جس کی نشاندہی عسکری قیادت کرتی رہی ہے۔اس تقسیم کا ایک پہلو معاشی اور سماجی ناانصافی سے جڑا ہے۔ جب ریاست اپنے شہریوں کو یکساں مواقع فراہم کرنے میں ناکام نظر آئے، جب قانون کمزور اور طاقتور کے لیے الگ الگ معنی رکھتا ہو تو محرومی کے احساس سے فائدہ اٹھانے والی قوتیں آسانی سے لوگوں کو اپنے بیانیے کے پیچھے لگا لیتی ہیں۔ بیرونی عناصر بھی اسی داخلی کمزوری کو استعمال کرتے ہیں۔ پراکسی جنگیں، فتنہ انگیز نیٹ ورکس اور معلوماتی جنگ اسی ماحول میں کامیاب ہوتی ہے جہاں قوم اندر سے منقسم ہو۔ عسکری قیادت کا کردار اس تناظر میں واضح ہے۔ سرحدوں کا دفاع، دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں اور پیشہ ورانہ تیاری وہ ذمہ داریاں ہیں جن میں پاک فوج نے بھاری قیمت ادا کی اور نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا جوانوں کے بلند حوصلے اور غیر متزلزل عزم کو سراہنا دراصل اس تسلسل کا اعتراف ہے۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قومی استحکام کے لیے سیاسی قیادت، پارلیمان، عدلیہ، میڈیا اور خود معاشرے کو ایک مشترکہ ذمہ داری اٹھانا ہوگی۔ سیاسی سطح پر عسکری قیادت کے اس مشن کی تائید کا مطلب یہ نہیں کہ اختلاف ختم کر دیا جائے یا سوال اٹھانا جرم بنا دیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاست کو ریاست دشمنی کے بجائے ریاست سازی کا ذریعہ بنایا جائے۔ آئین کو بالاتر مانا جائے، اداروں کے دائرہ اختیار کا احترام کیا جائے، سیاسی مفاہمت کا ماحول بنایا جائے اور اقتدار کے لیے ایسی زبان استعمال نہ کی جائے جو معاشرے میں نفرت اور بداعتمادی پھیلائے۔ قومی سلامتی کو محض ایک نعرہ نہیں بلکہ پالیسیوں کی بنیاد بنایا جائے تاکہ خارجہ، داخلہ اور معاشی فیصلے ایک دوسرے سے متصادم نہ ہوں۔عوامی سطح پر اس تائید کا تقاضا اور بھی گہرا ہے۔ شہریوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اختلافِ رائے اور نفرت انگیزی میں فرق ہے۔ سچ کی تلاش اور افواہ پھیلانے میں فرق ہے۔ قومی اداروں پر تنقید اور انہیں مکمل طور پر غیر معتبر بنانے میں فرق ہے۔ جب عوام خود اس فرق کو سمجھ لیتے ہیں تو تقسیم پسند قوتوں کی سب سے بڑی طاقت ختم ہو جاتی ہے۔ تعلیم، مکالمہ اور ذمہ دار میڈیا یہاں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ پاکستان نے اس تقسیم کے ہاتھوں بھاری نقصان اٹھایا ہے۔ معاشی عدم استحکام، سرمایہ کاری کا فقدان، عالمی سطح پر غیر یقینی پن اور سب سے بڑھ کر قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع اسی مسلسل انتشار کا نتیجہ ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دی گئی قربانیاں، سیاسی عدم استحکام کے باعث ضائع ہونے والے مواقع اور نوجوان نسل کی مایوسی سب اس سوال کی یاد دہانی ہیں کہ قومیں اندر سے ٹوٹیں تو بیرونی دشمن کو زیادہ محنت نہیں کرنا پڑتی۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ عسکری قیادت کے اس پیغام کو ایک وسیع تر قومی بیانیے میں بدلا جائے۔ ایسا بیانیہ جو سلامتی کو صرف بندوق سے نہیں بلکہ انصاف، معیشت، تعلیم ، سیاسی مفاہمت اور سماجی ہم آہنگی سے جوڑے۔ جو اختلاف کو دشمنی نہیں بلکہ اصلاح کا ذریعہ سمجھے۔ جو یہ تسلیم کرے کہ پاکستان کی اصل طاقت اس کے عوام ہیں اور ان عوام کو بانٹنے والی ہر قوت، چاہے وہ کسی بھی لبادے میں ہو، دراصل قومی استحکام کی دشمن ہے۔ یہی وہ شعور ہے جو فوج کے عزم، سیاست کی ذمہ داری اور عوام کے کردار کو ایک ہی سمت میں لا سکتا ہے، یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر پاکستان تقسیم کے اس دائرے سے نکل کر استحکام کی طرف بڑھ سکتا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here