پاکستانی وکلاء حضرات پاکستان کی بار کونسلوں کے دیئے ہوئے سرٹیفکیٹ برائے پریکٹس کی بجائے اپنے تعارفی کاغذات اور کارٹوں میں سپریم کورٹ ہائی کورٹ، برطانوی سرٹیفکیٹ بیرسٹر کنسلٹنٹ اٹارنی ایٹ لا کے ٹائٹل استعمال کرتے نظر آرہے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ ایک وکیل کی اصل وکالت بطور ٹرائیل کورٹ ہوتی ہے جو پاکستان کے ڈسٹرکٹ کورٹس اور لوئر کورٹس کہلاتے ہیں جن کے پاس فوجداری مقدمات میں مجرموں کو پھانسیوں تک اور سول مقدمات میں بڑے بڑے فیصلے دینا مقصود ہوتا ہے جبکہ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ صرف اور صرف ایلیٹ کورٹس کہلاتے ہیں جو ٹرائیل کورٹسوں کے مقدمات میں کسی بے قاعدگی پر اپیل منظور کرتے ہوئے فیصلوں میں ردوبدل کر دیتے ہیں چونکہ پاکستان کے ہائی کورٹس سپریم کورٹ اپیل کورٹس کی بجائے ٹرائیل کورٹس بن چکے ہیں یہاں وہ درخواستیں قابل سماعت پائی جاتی ہیں جن کا ہائی کورٹوں یا سپریم کورٹ سے دور دور کا واسطہ نہیں ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے ہزاروں مقدمات اعلیٰ عدالتوں میں زیرسماعت ہیں یا پھر اختیارات کے لحاظ سے عدالت اعلیٰ اور عدالت عظمیٰ کو جان بوجھ کر ہر درخواست کی سماعت کا اختیار دے دیا گیا ہے جس کی وجہ سے اعلیٰ عدالتیں اور سپریم کورٹ غیر اپیل مقدمات میں مصروف رہتی ہیں جس کی بنا پر وکلاء کو حضرات کو اپنا تعارفی کارڈ پر سپریم کورٹ، ہائی کورٹ کے ساتھ ساتھ ……بیرسٹر یا پھر انجانے میں امریکی ٹائٹل اٹارنی ایٹ لا کا استعمال کرتے ہوئے اپنی اعلیٰ پہچان منواتے ہیں جبکہ بار کونسلوں میں پاکستان میں وکالت کرنے والے کا ٹائٹل صرف اور صرف ایڈووکیٹ انرولسمنٹ کہلاتا ہے برعکس امریکہ میں ریاستی اور فیڈرل عدالتیں پائی جاتی ہیں ریاستی عدالتوں میں بڑے بڑے فوجداری اور سول عدالتوں میں اربوں کھربوں کے مقدمات پائے جاتے ہیں جن کے اپنے اپنے سپریم کورٹس اور ایلیٹ کورٹس ہوتے ہیں۔ یا پھر فیڈرل ڈسٹرکٹ کورٹس اور سرکٹ کورٹس ایلیٹ کورٹس کہلاتے ہیں جن کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ آف یو این اے ہے یہاں فیڈرل ڈسٹرکٹ کورٹس جو ٹرائیل کہلاتے ہیں جن کے پاس وہ مقدمات زیرسماعت ہوتے ہیں جس میں مختلف ریاستوں کے شہری مختلف ریاستوں کے تنازعات آئینی مقدمات فیڈرل اداروں کے خلاف مقدمات یا پھر بنک کر پسی، کلاس ایکشن جسے مقدمات کہلاتے ہیں جو اپیل کے لئے سرکٹ کورٹ یا پھر سپریم کورٹ آف یو ایس اے کے پاس پہنچتے ہیں یا پھر سپریم کورٹ آف یو ایس اے کے پاس اپنی اورجینل جیورس ڈکشن کے مقدمات ہوتے ہیں جس میں غیر ملکی سفارت کار ریاست مخالف ریاست یا پھر ریاست مخالف فیڈرل کے مقدمات پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے اختیارات میں مداخلت نہیں کرتے نظر آتے ہیں جن کا وکیل اٹارنی ایٹ لاء کہلاتا ہے جو چاہے وہ ریاستی عدالت یا پھر فیڈرل عدالت کا وکیل ہو۔جو دوسری ریاستوں میں وکالت نہیں کرسکتا ہے۔ بہرحال میرا یہ مضمون لکھنے کا مطلب اور مقصد صرف یہ ہے کہ پاکستانی وکلا برداری کو علم ہونا چاہیے کہ ایک وکیل اور عدالت کا کیا رشتہ ہوتا ہے یہ جانتے ہوئے کہ اس پیشے میں چار اقسام پائی جاتی ہیں۔ ایک لائر ہے جو ہر قانون کا تعلیم یافتہ شخص لائر کہلاتا ہے دوسرا ایڈووکیٹ جو ہندوستان اور پاکستان میں میڈیکل ڈاکٹر کی طرح ایڈووکیٹ کہلاتا ہے جس کو مقامی بارگو نسلیں سرٹیفکیٹ دیتی ہیں۔ باقی تمام ٹائٹل غیر ملکی ہیں جس میں بیرسٹر، اٹارنی ایٹ لاء وغیرہ جو برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور امریکہ میں وغیرہ ہیں کامن اور ممالک میں پائے جاتے ہیں جو اپنے اپنے ملکوں میں اپنائے ہوتے ہیں اگر کوئی بھارتی یا پاکستانی وکیل اپنا ایڈووکیٹ کا ٹائٹل برطانوی، آسٹریلوی، کینیڈین عدالتوں میں استعمال نہیں کرسکتا ہے تو پھر مجوزہ ممالک کے وکالت کے ٹائٹل پاکستانی عدالتوں میں کیوں استعمال ہو رہے ہیں جس پر پاکستان کی بارکو نسلوں کو ایکشن لینا پڑے گا۔
٭٭٭٭٭

![2021-04-23 18_32_09-InPage - [EDITORIAL-1-16] رمضان رانا](http://weeklynewspakistan.com/wp-content/uploads/2021/04/2021-04-23-18_32_09-InPage-EDITORIAL-1-16.png)












