کتابیں ہمیشہ کسی نہ کسی خیال کی ترجمان ہوتی ہیں، مگر کچھ کتابیں دل کے دریچوں پر دستک دیتی ہیں۔ ڈاکٹر مقصود جعفری کی تازہ تصنیف “ادبی تبصرے” بھی انہی دل آویز کتابوں میں سے ایک ہے، جو حال ہی میں نیشنل بک فانڈیشن اسلام آباد سے شائع ہوئی ہے اور مصنف کی دریا دلی سے مجھے ڈاک کے ذریعے موصول ہوئی۔ یہ کتاب صرف کتب اور شخصیات پر تبصروں کا ایک مجموعہ نہیں بلکہ اہلِ علم کی جمالیات، ان کے فکری رنگوں اور ادبی جہات کی آئینہ خانہ ہے۔ ڈاکٹر مقصود جعفری عصرِ حاضر کے ان معدودے چند بلند پایہ قلم کاروں میں شمار ہوتے ہیں جن کے دامن میں شاعری، نثر، تحقیق، تبصرہ، خطابت اور بین المذاہب امن کی بیش بہا روایات جمع ہیں، انہیں بجا طور پر شاعرِ ہفت زبان کہا جاتا ہے۔ وہ ایک مدبر، حقیقت پسند مصنف اور تجربہ کار استاد ہیں۔ اردو، فارسی، عربی، پنجابی، کشمیری، ہہاڑی، انگریزی اور دیگر زبانوں میں ان کی فکری جولانیاں ان کی ہمہ جہت شخصیت کا ثبوت ہیں۔ فارسی میں ان کے تین شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں، ان کی نثر شگفتہ، اسلوب نفیس اور فکر گہرائیوں سے مالا مال ہے۔ آپ کا وسیع مطالعہ اور دقیق نگاہ ان تحریروں کی جامعیت کا باعث ہے۔ عالمی سطح پر امن، محبت اور بقائے باہمی کے حوالے سے ان کی خدمات غیر معمولی ہیں۔ وہ اپنی مخصوص علمی وجاہت، سادگی، شرافت اور محبت بھرے انداز کے باعث جہاں جاتے ہیں دلوں میں گھر کر لیتے ہیں۔ ڈاکٹر مقصود جعفری کی تحریروں میں ایک ایسی چاشنی پائی جاتی ہے جو قاری کو نہ صرف اپنی طرف متوجہ کرتی ہے بلکہ اس کے باطن میں بھی چراغ روشن کر جاتی ہے۔ ان کا قلم جو کبھی نغمہ محبت بنتا ہے، کبھی حرفِ حکمت، کبھی نکت عرفانہمارے عہد کی ادبی زندگی کا انتہائی قیمتی اثاثہ ہے۔ کتاب ”ادبی تبصرے” میں جابجا اہلِ ذوق و اہلِ نظر پر یوں روشنی ڈالی گئی ہے کہ ہر مضمون اپنی جگہ ایک فن پارہ محسوس ہوتا ہیچاہے وہ پروفیسر نواب نقوی کے دو نادر قطعات کی بابت ہو، صاحبانِ ذوق کی بصیرت افروز جھلکیاں، نیلم بھٹی کو کاس درد کی شاعرہ قرار دینے کا فکری حسن، یا ثمینہ گل کے بارے میں گلستانِ شاعری کی تشبیہ۔ اسی طرح انجم خلیق، شاعراتِ کشمیر، سخنِ ثانی اور دیگر علمی مباحث اس کتاب کو ایک دلنشیں ادب پارہ بناتے ہیں۔ لیکن ان تمام تحریروں میں سے صفحہ 154 پر مضمون خاکسار کی بابت ہے۔ اس نے میرے دل میں ایک خاص رقت طاری کردی ہے اور مسرت و انبساط کی کیفیت طاری کردی ہے۔اِس مضمون کا عنوان ہے۔ مردِ دین و دانش: ڈاکٹر وحید الزمان طارق” یہ صرف میرا تعارف نہیں، بلکہ ڈاکٹر مقصود جعفری کی دیرینہ محبت، شفقت اور حسنِ اعتراف کا استعارہ ہے۔ آپ نے ناچیز کی شخصیت اورادبی خدمات کا خوبصورت پیرائے میں احاطہ کیا ہے۔ یہ مضمون متعدد مجلات اور اخبارات میں شائع ہو چکا ہے اور اب اس کتاب کی زینت بنا ہے۔ ہماری باہمی شناسائی کو تقریبا بیس برس کا عرصہ بیت چکا ہے۔ جب میں متحدہ عرب امارات میں اقبالیات کے حوالے سے خطبات و تقاریب کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھا، انہی دنوں آپ امریکہ کے شہر نیویارک میں مقیم تھے۔ دور ہوتے ہوئے بھی قربت کا رشتہ یوں استوار رہا کہ انہوں نے امریکہ سے ہمارے لیے اقبالیات پر ایک نہایت وقیع آنلائن خطاب فرمایا۔ یہ ان کی وسعتِ قلبی اور فنِ اقبال سے گہرے شغف کی خوبصورت مثال ہے۔ ڈاکٹر مقصود جعفری نے میری شعری کتاب “زمزمہ احوال” پر جو خوبصورت دیباچہ تحریر کیا، وہ میرے لیے علمی محبت اور ادبی رفاقت کا روشن مینار ہے۔ اقبال اکیڈمی سے شائع ہونے والی میری انگریزی تصنیف پر انہوں نے جس محبت سے تبصرہ کیا، اس کا ذکر وہ اپنی متعدد تحریروں میں کرتے رہییہ ان کی دردمندی، بے تکلف سچائی اور خلوصِ نظر کی دلیل ہے۔ اور سب سے بڑھ کر وہ لمحہ جس نے میرے دل پر نقشِ دوام کی طرح جگہ بنائی جب اٹلی کے ایک ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ! علامہ اقبال کے بعد برصغیر میں فارسی کاسب سے بڑا شاعر ڈاکٹر وحید الزمان طارق ہے۔ حالانکہ خود وہ فارسی کے عظیم شاعر ہیں اور ان کے تین مجموعے فارسی شاعری کی کلاسیکی روایت کو تازگی بخشتے ہیں۔ مگر ان کی عظمتِ کردار یہی ہے کہ اپنے سے عمر میں چھوٹے شخص کو بھی بلا تردد عزت بخشی ہے۔ میرا ان سے پہلا تعارف اس وقت ہوا جب میں فوج میں خدمات انجام دے رہا تھا۔ ڈاکٹر اکرم شاہ اکرام نے ایک نیا ادبی مجلہ شائع کرنے کا ارادہ ظاہر کیا، مگر عسکری مصروفیات کے باعث یہ ذمہ داری مجھ پر نہ آ سکی۔ تب معلوم ہوا کہ ڈاکٹر مقصود جعفری نے یہ بوجھ محبت اور فن کے ساتھ اٹھا لیا اور نہ صرف مجلے کا اجرا کیا بلکہ اسے وقار بھی بخشا۔ فارسی میں ان کی منظومات ہمیشہ میرے مطالعے کی زینت بنتی رہیں اور ان کے اثرات تاحیات میرے دل و ذہن میں محفوظ ہیں۔
مختلف کتب پر تبصرے اس کتاب میں شامل ہیں۔ زیر نظر ایک مضمون علامہ اقبال کے ایک شعر سے ماخوذ ہے۔ آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و اسیر اس میں شیخ مستفیض الرحمان مقیم سری نگر کا ذکر ہے۔ وہ ایک کالم نگار ہیں جن کی کشمیر کے مختلف شعرا اور ادیبوں پر لکھے ہوئے کالم زیر بحث آئے ہیں۔ علاہ ہریں کشمیر پر لکھی گئی کتب کا ذکر ہے۔ پھر خود ڈاکٹر مقصود جعفری کے خاندان کی کتب کی تفصیلات درج کیں۔۔ آپ کے والد صاحب جناب تحسین جعفری کی کتب جنت سوزاں (اردو شاعری)، پوش تھر (کشمیری شاعری), کشمیر:لوک روایات کے آئینے میں ہیں۔ اس کے علاہ آپ کے برادر ارشد میجر رفیق جعفری اور جناب مقصود جعفری کی کشمیر پر لکھی گئی اپنی کتب کا ذکر ہے
اس طرح متنوع موضوعات پر لکھی گئی مختصر مگر جامع کتب
بے شمار ادبی موضوعات پر مبنی ہے۔ اس کا اسلوب عالمانہ اور تحریر سادہ مگرفصیح ہے۔
٭٭٭














