جنرل فیض حمید عبرت کا نشان کیوں بنے؟

0
1

جنرل فیض حمید عبرت کا نشان کیوں بنے؟

ایک وقت تھا جب پاکستان کی حکومت افغانستان میں طالبان کو حکومت میں لانے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہی تھی، ان کو بھرپور اسلحہ افراہم کیا جا رہا تھا جبکہ مجاہدین کو ٹرین کر کے افغانستان بھجوایا جا رہا تھا تاکہ روسی افواج کو شکست سے دوچار کیا جا سکے ، اس دوران پاکستان اور امریکہ نے افغان طالبان کی بھرپور مدد کی ان کو نہ صرف اسلحہ فراہم کیا بلکہ بے پناہ افرادی قوت بھی فراہم کی، آج کی طالبان حکومت اسی افرادی قوت کی دوسری یا تیسری نسل ہے جوکہ پاکستان اور امریکہ کو ایک آنکھ نہیں بھا رہی ہے ۔روسی فوج کے افغانستان سے انخلا کے بعد بھی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے افغان طالبان کی مدد جاری رکھی ، جنرل حمید گل اس سب کارروائیوں میں پیش پیش رہے ، مقصد افغانستان میں پاکستان کا اثرو رسوخ قائم کرنا تھا لیکن کرزئی حکومت آنے کے بعد تمام کھیل اُلٹا پڑ گیا اور افغان حکومت نے اپنا جھکائو بھارت کے حق میں کیا،لیکن اس کے بعد جنرل فیض حمید نے افغان طالبان کی مدد کا بیڑا اُٹھایا اور یہی وجہ تھی کہ امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے فوری بعد جنرل فیض حمید رات کی تاریکی میں افغانستان کے آسمان پر نمودار ہوئے اور صبح سویرے کابل میں لینڈ کیا ، ان کی ہاتھ میں چائے کا کپ تھامے کابل میں تصاویر نے سوشل میڈیا پر آگ لگا دی، بھارت نے پراپیگنڈا کیا کہ آخر پاکستانی آئی ایس آئی ایس چیف بغیر سفارتی چینل استعمال کیے کیسے افغانستان کا دورہ کر سکتا ہے وہ بھی خاموشی سے رات کی تاریکی میں ، پھر عمران خان کی حکومت آنے کے بعد فیض حمید اور سابق وزیراعظم عمران خان دونوں ہی طالبان اور دہشتگردوں کے خلاف فوجی کارروائیوں سے گریز اں رہے اور مذاکرات سے معاملات حل کرنے کے لیے کوشاں دکھائی دیئے جواس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کو انتہائی ناگوار گزرا اور یہی وجہ تھی کہ جنرل فیض حمید کو عہدے سے ہٹایا گیا اور وزیراعظم عمران خان نے اس سمر ی پر دستخط کے لیے جنرل باجوہ کو پورے ایک ہفتہ تک انتظار کروایا ، یہی وہ معاملات تھے جن کی آج جنرل فیض کو سزا دی جا رہی ہے ۔اس وقت جنرل عاصم منیر تاحیات چیف آف ڈیفنس کا عہدہ لینے کے بعد امریکہ کی تمام شرائط ماننے کے لیے تیار بیٹھے ہیں اور حکومت ان کی ہاں میں ہاں ملانے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔یہ آئی ایس آئی کے لیے بھی بہت بڑی آزمائش کا وقت ہے ،جنرل عاصم منیر اپنا اقتدار بچانے کے لیے تمام شرائط قبول کرنے پر مجبور ہیں ، کیونکہ ایک طرف عمران ہیں اور دوسری طرف امریکہ کی دھمکیاں ہیں۔سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمیدکے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت فیلڈجنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کیا گیا اور فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا یہ عمل 15 ماہ تک جاری رہا۔ملزم کے خلاف 4 الزامات پر کارروائی کی گئی، الزامات میں سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا،آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی، اختیارات اور سرکاری وسائل کا غلط استعمال اور متعلقہ افراد کو ناجائز نقصان پہنچانا شامل ہیں۔طویل اور محنت طلب قانونی کارروائی کے بعد ملزم تمام الزامات میں قصور وار قرار پایا گیا ہے، عدالت کی جانب سے دی گئی سزا کا اطلاق 11 دسمبر 2025 سے شروع ہوگا۔لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے پر تعینات رہے اور وہ کور کمانڈر پشاور بھی رہ چکے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو 12 اگست 2024 کو سپریم کورٹ کے حکم پر ٹاپ سٹی کی کورٹ آف انکوائری شروع کیے جانے کے بعد حراست میں لیا گیا تھا۔فیض حمید کو حراست میں لیے جانے کے ایک دن بعد عدالت میں پیشی کے موقع پر سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ فیض حمید کا سارا ڈراما مجھے فوجی عدالت لے جانے کے لیے کیا جا رہا ہے، فیض حمید کو میرے خلاف وعدہ معاف گواہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے جو افراد طاقت کے مراکز تک رسائی نہیں رکھتے، ان کے لیے یہ سمجھنا آسان نہیں کیونکہ آئی ایس آئی کی قیادت کرنے والے کسی افسر کو اس سے قبل اس کے اپنے ادارے نے کبھی جواب دہ نہیں ٹھہرایا تاہم یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں سول اور عسکری تعلقات پیچیدہ رہے ہیں، آئی ایس آئی کے سربراہان ہمیشہ تنازعات کی زد میں رہے ہیں۔ یہ زیادہ تر سیاسی اور طاقت کے تعلقات کا نتیجہ رہا ہے، نہ کہ محض افراد کا۔ اسد درانی سے لے کر حمید گل اور احسان الحق تک، یہ سب شخصیات میڈیا کی توجہ کا مرکز رہیں، حالانکہ اس دور کا میڈیا آج کے مقابلے میں خاصا محدود تھا۔حالیہ دور میں شجاع پاشا آئے، جنہوں نے شاید اپنے سربراہ کے ساتھ توسیع کی روایت کو فروغ دیا۔ وہ میموگیٹ جیسے بحران میں بھی مرکزی کردار رہے، جہاں ان کا حلف نامہ تنازع اور عدم استحکام کا باعث بنا۔ اگرچہ آج انہیں زیادہ تر پی ٹی آئی کو اقتدار میں لانے اور مشہور لاہور جلسے کی منصوبہ بندی کرنے والے دماغ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ان کے بعد ظہیرالاسلام آئے، جن پر 2014 کے دھرنے کی منصوبہ بندی کا الزام لگا۔ اس دھرنے کے عروج کے دوران میڈیا میں ایسی رپورٹس آئیں کہ حکومت سے ملاقاتوں میں ان اور اس وقت کے آرمی چیف کے درمیان بے چینی پائی جاتی تھی۔ اس کے بعد رضوان اختر آئے، جنہوں نے نسبتاً خاموشی سے اپنی مدت پوری کی جبکہ ان کے ماتحت فیض حمید تمام تر توجہ کا مرکز بنے رہے اور 2018 کے انتخابات سے قبل ملک بھر میں سرگرم رہے۔ تاہم رضوان اختر بھی جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے قریب پیدا ہونے والے تنازعات سے محفوظ نہ رہ سکے، مثلاً جب ایک سینیٹر نے قمر جاوید باجوہ کے بارے میں بیان دیا، جو اس وقت ابھی آرمی چیف منتخب نہیں ہوئے تھے۔یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ فیض حمید کے کریئر میں دو ایسے ادوار آئے جب وہ غیر معمولی طور پر نمایاں رہے۔ سیاست میں مداخلت، قتل کے الزامات، دھمکیاں، میڈیا کو دبانا اور حتیٰ کہ رشوت ستانی ان پر ہر طرح کے الزامات لگے، اور اب ان میں سے بہت سی باتیں کھلے عام کہی جا رہی ہیں۔اس سارے کھیل میں چیف آف ڈیفنس جنرل عاصم منیر کا کردار بہت زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے ،اب یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ جنرل عاصم منیر کیا کردار ادا کرتے ہیں۔

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here