سورة اللیل حصہ اول !!!

0
1

اجمالی پس منظر: یہ سورہ کب اور کیوں نازل ہوئی؟ سورة اللیل مکی دور کے ابتدائی مرحلے میں نازل ہوئی، جب دعوتِ نبوی ابھی کھلے میدان میں نہیں آئی تھی، مگر مکے کی سماجی و معاشی تقسیم شدید تھی۔ ایک طرف دولت، طاقت اور قبیلائی رتبہ رکھنے والے سردار تھے، اور دوسری طرف کمزور، غلام، یتیم اور محروم لوگ۔ اسی ماحول میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ وحی نازل ہوئی جو انسان کے عمل، ارادے، کوشش اور نیت کو کائناتی اصولوں کے ساتھ جوڑتی ہے۔ یہ سور اعلان کرتی ہے کہ کائنات دو دھاروں پر چلتی ہے: ایک خیر کا دھارا، اور دوسرا شر کا دھارا۔ انسان انہی میں سے کسی ایک دھارے کا انتخاب کر کے اپنی تقدیر خود بناتا ہے۔ اس سور میں بنیادی سبق یہ دیا گیا ہے کہ زندگی کی اصل کامیابی محنت، سخاوت، پاکیزہ نیت، اور رب کی رضا میں ہے، جب کہ ناکامی لالچ، بخل، تکبر اور حق سے اعراض میں ہے۔ حصہ اول (آیات 1 تا 11) آیت 1: واللیلِ اِذا یغشی قسم ہے رات کی جب وہ ہر چیز کو اپنے پردے میں چھپا لیتی ہے۔ رات کا پھیل جانا کائناتی نظام کا پہلا سبق دیتا ہے: ہر حقیقت پہلے پردے میں چھپتی ہے، پھر آہستہ آہستہ روشن ہوتی ہے۔ انسانی زندگی بھی اسی اصول پر چلتی ہے۔ آزمائشیں پہلے اندھیرا بن کر آتی ہیں، نتائج ظاہر نہیں ہوتے، محنت کا fruit نظر نہیں آتا۔ ایک طالبِ علم بھی پہلے رات کی طرح محنت کے اندھیرے میں داخل ہوتا ہے، پھر دن کے اجالے جیسا نتائج پاتا ہے۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ زندگی میں رات کا آنا ناکامی نہیں بلکہ نظامِ فطرت کا حصہ ہے ۔ ہر دکھ، ہر آزمائش، ہر رکاوٹ دراصل رات کی طرح ایک پردہ ہے جو کچھ وقت تک رہتا ہے لیکن ہمیشہ نہیں رہ سکتا۔ دنیا میں انسان کے ایمان اور عمل کی پرکھ بھی اسی اصول پر ہوتی ہے: کیا وہ رات کے اندھیرے میں چل سکتا ہے؟ کیا وہ مشکل حالات میں بھی حوصلہ رکھتا ہے؟ کیا وہ آزمائشوں میں بھی اپنے راستے سے نہیں ہٹتا؟ یہ آیت اپنے اندر گہرا نفسیاتی پیغام رکھتی ہے: انسانی ذہن کو ہمیشہ یقین رکھنا چاہیے کہ رات کے بعد روشنی کا ظہور لازمی ہے، کیونکہ رات اللہ کے نظام کا ایک مرحلہ ہے، اختتام نہیں ۔ آیت 2: والنہارِ اِذا تجلی قسم ہے دن کی جب وہ پوری شان سے روشن ہو جائے۔ یہ آیت پہلی آیت کی ضد اور تکمیل ہے۔ جس طرح رات پردہ ڈالتی ہے، دن اس پردے کو ہٹا دیتا ہے۔ یہاں ایک انتہائی عمیق اشارہ ہے: اللہ نے انسان کو کائنات کے دو واضح اشارے دیے ہیں۔ 1 رات: یعنی چھپا، آزمائش، ambiguity 2 دن: یعنی انکشاف، وضاحت، نتیجہ انسان کی پوری زندگی انہی دونوں quality cycles میں گھومتی ہے۔ جب محنت، نیت اور جدوجہد صحیح ہوتی ہے تو انسان کے عمل کا نتیجہ دن کی طرح ظاہر ہوتا ہے۔ یہاں ایک اصول بنتا ہے: جس شخص کی نیت پاک ہے، اللہ اس کے راستے کو دن کی طرح روشن کر دیتا ہے۔ اور جس کی نیت میں کجی ہے، اس کا راستہ رات کی طرح دھندلا رہتا ہے۔ اس آیت میں ایسا metaphysical قانون موجود ہے جو spiritually بھی سچ ہے، psychologically بھی، اور socially بھی: روشنی ہمیشہ ظاہر ہوتی ہے، شرط یہ ہے کہ انسان darkness میں قائم رہے۔ آیت 3: وما خلق الذکر والانثی قسم ہے اس ذات کی جس نے نر اور مادہ کو پیدا کیا۔ (جاری ہے)
یہاں کائناتی diversity کا ذکر ہے۔ دنیا duality پر قائم ہے: نر و مادہ زوال و کمال خیر و شر سختی و نرمی محنت و آرام یہ آیت پوری زندگی کی بنیاد سمجھا دیتی ہے کہ انسان ایک dual نظام میں جی رہا ہے۔ ہر چیز کا جوڑا ہے۔ حتی کہ انسان کے اندر بھی خیر و شر دونوں impulses پائے جاتے ہیں۔ اس آیت کا عملی پیغام یہ ہے: انسان فیصلہ کرنے والا مخلوق ہے۔ اس کے سامنے ہمیشہ دو راستے ہوں گے۔ آیت 4: اِن سعیکم لشتی بے شک تمہاری کوششیں جدا جدا ہیں۔ یہ آیت پورے سور اللیل کا central thesis ہے۔ ہر انسان کا راستہ، اس کی نیت، اس کا مقصد، اس کی محنت، اس کی ترجیحات الگ الگ ہیں۔ لوگ ایک جیسے دکھتے ہیں مگر ان کے اندرونی ارادے یکساں نہیں ہوتے۔ دو لوگ ایک ہی راستے پر چلتے ہیں لیکن ایک جنت کے قریب ہو رہا ہوتا ہے، دوسرا جہنم کے۔ ایک ہی بازار میں دو تاجر ہیں: ایک سچ سے کماتا ہے، ایک جھوٹ سے۔ یہ diversity of intentions انسان کی تقدیر کو مکمل طور پر بدل دیتی ہے۔ یہاں قرآن انسان کو shake کرتا ہے کہ: اپنی کوششوں کی سمت دیکھو، نیت کا رخ دیکھو، تمہارا عمل کدھر لے جا رہا ہے؟ آیت 57: فاما من اعطی واتقی۔ وصدق بِالحسنی۔ فسنیسِرہ لِلیسری جو شخص دیتا ہے، اور تقوی اختیار کرتا ہے، اور حسنہ (بہترین خیر) کی تصدیق کرتا ہے، تو ہم اس کے لیے آسان راستہ آسان کر دیتے ہیں۔ یہ تین صفات ہیں جو انسان کو آسانی کی راہ پر ڈال دیتی ہیں: 1 اعطی سخاوت، دینے کا جذبہ، خیر بانٹنے کا حوصلہ۔ یہ صرف مال تک محدود نہیں۔ وقت دینا، علم دینا، محبت دینا، سہارا دینا بھی اعطی ہے۔ 2 تقوی دل کو پاک رکھنا، نیت کو شفاف رکھنا، برائی سے بچنا۔ 3 الحسنی کی تصدیق یعنی خیر کے اس ultimate truth پر ایمان کہ نیکی کبھی ضائع نہیں جاتی، اور انعام حقیقی ہمیشہ دائمی ہے جو یہ تین qualities رکھتا ہے، اس کے لیے اللہ راستوں کو نرم کر دیتا ہے۔ زندگی کی complexities آسان محسوس ہونے لگتی ہیں، فیصلے واضح ہوتے جاتے ہیں، اور کامیابی دروازے کھولتی جاتی ہے۔ آیت 811: و اما من بخِل واستغنی۔ وکذب بِالحسنی۔ فسنیسِرہ لِلعسری اور جو بخل کرتا ہے، بے نیازی دکھاتا ہے، حسنہ کو جھٹلاتا ہے، تو ہم اس کے لیے مشکل راستہ آسان کر دیتے ہیں۔ یہاں وہی تین qualities الٹی شکل میں: 1 بخل دل کا تنگ ہونا، محض اپنے لیے جینا، دوسروں کی ضرورت نہ دیکھنا۔ بخل صرف مال کا نہیں، رویے کا بھی ہوتا ہے۔ جو شخص محبت، توجہ، وقت، علم میں کنجوسی کرتا ہے وہ بھی اسی زمرے میں ہے۔ 2 استغنا یہ وہ کیفیت ہے کہ انسان اپنے آپ کو محتاجِ رب نہیں سمجھتا۔ یہ تکبر کی جڑ ہے، زوال کی بنیاد ہے۔ 3 تکذیبِ حسنی یعنی بہترین انجام پر یقین نہ رکھنا۔ اچھائی کی قدر نہ کرنا۔ زندگی کو بس مادی آنکھ سے دیکھنا۔ ایسے شخص کی پوری زندگی بہتری کی طرف نہیں، بلکہ مزید مشکل کی طرف جاتی ہے۔ ہر کام رکاوٹ بنتا ہے، ہر راستہ بھاری لگتا ہے، دل میں بے چینی بڑھتی ہے۔ یہ قرآن کا نفسیاتی قانون ہے: نیت خراب ہو تو راستے سخت ہو جاتے ہیں۔ سور اللیل حصہ دوم (آیات 12 تا 21) حصہ دوم اصل میں انسان کے انجام، اس کے انتخاب کی قیمت، اور اللہ کی طرف سے بنائے گئے کائناتی انصاف کے نظام کی وضاحت ہے۔ پہلے حصے میں یہ بتایا گیا تھا کہ انسان کی کوششیں دو طرح کی ہوتی ہیں: ایک یسری یعنی آسانی اور بھلائی کی طرف دوسری عسری یعنی سختی اور گمراہی کی طرف۔ اب حصہ دوم یہ سمجھاتا ہے کہ ان دونوں راستوں کے انجام کیا ہیں، اور انجام تک پہنچانے والا رب کا نظام کس طرح کام کرتا ہے۔ آیت 12: و اِن علینا للہدی بیشک ہدایت دینا ہمارے ذمہ ہے۔ یہ ایک فیصلہ کن اعلان ہے۔ اللہ یہ بتا رہا ہے کہ انسان پر بھلے ہی عمل لازم ہے، مگر ہدایت عطا کرنا صرف اس کی شان ہے۔ یہاں تین بنیادی پیغام ہیں: 1 اللہ انسان کو ضائع نہیں کرتا اگر انسان سچی نیت سے راستہ ڈھونڈے تو اللہ ہدایت ضرور پہنچا دیتا ہے۔ وسیلے پیدا کر دیتا ہے۔ راستہ واضح کر دیتا ہے۔ 2 ہدایت محض کتاب پڑھ لینے سے نہیں ملتی بلکہ دل کے کھلنے سے ملتی ہے۔ دل کھلتا ہے تو وہی آیت بدل کر نور بن جاتی ہے۔ 3 ہدایت کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا انسان ہزار بار گرے، تب بھی اس کے لیے ہدایت کی راہ موجود رہتی ہے، بس وہ خود اپنی ضد اور خواہشات سے باہر نکل آئے۔ آیت 13: و اِن لنا للاخِر والاولی اور بے شک آخرت اور دنیا، دونوں ہمارے ہی اختیار میں ہیں۔ یہ آیت انسان کے تکبر، غرور، اور خود خدائی کے دعوے کو کاٹ دیتی ہے۔ انسان دنیا میں جتنا بھی طاقتور ہو جائے، جتنی بھی دولت جمع کر لے، جتنی بھی حکومتیں بنا لے، آخرکار نظام اسی کا ہے جس نے دنیا اور آخرت کو ایک ہی توازن میں باندھ رکھا ہے۔ اس آیت کے عملی اثرات 1 دنیا کو مطلق حقیقت نہ سمجھو یہ صرف امتحان ہے، آخری فیصلہ آخرت میں ہے۔ 2 آخرت کو دور سمجھ کر نظر انداز نہ کرو وہ بھی اسی رب کی ہے جو دنیا کا نظام چلا رہا ہے۔ 3 زندگی کے اتار چڑھا کو سمجھو دنیا مشکل دے سکتی ہے مگر آخرت کا ثمر ہمیشہ کے لیے ہے۔ دنیا کا نقصان عارضی ہے، لیکن آخرت کا نقصان ہمیشہ کے لیے۔ یہ وہ اصول ہے جو ایک مومن کے دل میں ثابت قدمی پیدا کرتا ہے۔ آیت 14: فانذرتکم نارا تلظی پس میں نے تمہیں خبردار کر دیا اس آگ سے جو بھڑکتی رہی ہے۔ یہاں رب مخاطب کو ہلا کر جگا رہا ہے۔ نارا تلظی وہ آگ جو بجھتی نہیں، جو بھڑکتی رہتی ہے، جس کی لپٹ مسلسل بڑھتی ہے۔ یہ قرآن کا وہ انداز ہے جس میں انسان کو اس کی روح تک پکڑ کر بتا دیا جاتا ہے کہ یہ دنیا خود انجام نہیں، انجام اس کے بعد ہے۔ اس آیت کی تہہ میں کیا پیغام ہے؟ انسان کے اندر اگر جواب دہی کا احساس نہ ہو تو اس کے اخلاق، کردار، فیصلے بکھر جاتے ہیں۔ یہ آیت یاد دلاتی ہے کہ زندگی آزاد نہیں، بلکہ جواب دہ ہے۔ آیت 1516: لا یصلہا اِلا الاشق۔ الذِی کذب وتولی وہ آگ صرف بدبخت ترین کو چھوئے گی، جو سچ کو جھٹلاتا ہے اور منہ پھیر کر بھاگ جاتا ہے۔ یہاں دو جرائم بیان ہوئے: 1 تکذیب سچ کو جان کر بھی نہ ماننا۔ حق کو اپنے مفاد، اپنی انا، اپنی خواہشات پر قربان کر دینا۔ 2 تولی یعنی حق کو سن کر منہ موڑ لینا۔ دل بند کر لینا۔ راہِ ہدایت سے جان بوجھ کر بھاگ جانا۔ یہ دونوں گناہ انسان کو بدبخت ترین بنا دیتے ہیں۔ کیونکہ یہ وہ گناہ ہیں جو دل کو مردہ کر دیتے ہیں۔ قرآن انسان کو جھٹکے سے بتاتا ہے کہ: جہنم کسی چھوٹی غلطی پر نہیں ملتی، بلکہ دل کے بگاڑ، نیت کی خرابی، اور حق سے اعراض پر ملتی ہے۔ آیت 1718: وسیجنبہا الاتق۔ الذِی یتِی مالہ یتزکی اور اس آگ سے دور رکھا جائے گا سب سے زیادہ متقی شخص۔ جو اپنا مال دیتا ہے تاکہ پاک ہو جائے۔ یہاں تین صفات کا بیان ہے جو انسان کو بچاتا ہے: 1 اتقی یعنی دل کا صاف، نیت کا شفاف، معاملے میں حساس، خطا پر فورا لوٹ آنے والا۔ 2 یتی مالہ نیکی کے راستے میں اپنا مال خرچ کرتا ہے، دل تنگ نہیں رکھتا، زندگی کو صرف اپنے ہاتھ تک محدود نہیں کرتا۔ 3 تزکیہ اصل مقصد اپنی روح کو پاک کرنا ہے۔ یعنی مال دینا دکھاوے کے لیے نہیں، بلکہ دل کی صفائی کے لیے ہے۔ یہ تزکیہ دراصل پورے دین کی بنیاد ہے۔ آیت 1920: وما لِاحد عِندہ مِن نِعم تجزی۔ اِلا ابتِغآ وجہِ ربِہِ الاعلی اور وہ کسی شخص کا احسان چکانے کے لیے نہیں دیتا، بلکہ صرف اپنے رب برتر کی رضا حاصل کرنے کے لیے۔ یہ آیت مومن کی نیت کا معیار بتایا ہے: نیکی بغیر مفاد نیکی بغیر اپنی دھاک بٹھانے کے۔ نیکی بغیر شہرت کے۔ نیکی بغیر واہ واہ کے۔ نیکی بغیر بدلے کے۔ یہ ہے اخلاص۔ یہ وہ اخلاص ہے جو اعمال کو نور میں بدل دیتا ہے۔ آیت 21: ولسوف یرضی اور یقینا اسے مکمل رضامندی عطا کر دی جائے گی۔ یہ قرآن کا سب سے امید دینے والا جملہ ہے۔ یہ انسان کے دل کو سکون، یقین، امن اور اعتماد دیتا ہے۔ اللہ کی رضا کا وعدہ جو دل سے نیکی کرتا ہے، جو صرف رب کی رضا چاہتا ہے، جو دنیا کی تالیاں نہیں مانگتا، جو سچ کے راستے پر چلتا ہے، اس کے لیے رب کا وعدہ ہے کہ اس کو وہ مقام ملے گا جہاں اس کی روح پوری طرح مطمئن ہو جائے گی۔ انسان کی سب سے بڑی خواہش یہی ہے کہ وہ کامیاب ہو، اور اللہ یہاں وعدہ کر رہا ہے کہ ایسا شخص کامیابی نہیں مانگے گا، بلکہ خود کامیابی اس کے پاس آئے گی۔ How to Apply Today 1 رات اور دن کا اصول: زندگی کے اتار چڑھا کو سمجھ کر چلنا سور اللیل کا آغاز رات اور دن کی قسم سے ہوتا ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ زندگی ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتی۔ اطلاق 1 اگر آپ مشکل دور سے گزر رہے ہیں تو اسے مستقل نہ سمجھیں۔ 2 ہر آزمائش عارضی ہوتی ہے، ہر مشکل کے بعد آسانی ضرور آتی ہے۔ 3 مشکل وقت میں جذباتی فیصلے مت کریں، کیونکہ رات روشنی لانے والی ہوتی ہے۔ جس نے یہ اصول سمجھ لیا، وہ depression، anxiety، غم اور بے چینی سے نکل سکتا ہے۔ 2 کوششوں کی دو قسمیں: اپنا راستہ خود پہچانیں اِن سعیکم لشتی انسانوں کی کوششیں ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ اطلاق اپنی زندگی کے بارے میں ایک سوال خود سے روز پوچھیں: “میں جو کر رہا ہوں، وہ مجھے آسانی کے راستے کی طرف لے جا رہا ہے یا مشکل کی طرف؟” اگر عمل میں: نیت صاف، محنت حقیقی، اور مقصد خیر ہو تو زندگی کے دروازے کھلنے لگتے ہیں۔ اگر عمل میں: بے ایمانی، لالچ، خود غرضی یا بد نیتی ہو تو راستے مزید بند ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہ قرآن کا نفسیاتی قانون ہے۔ 3 سخاوت کا اصول: برکت پیدا کرنا سیکھیں اعطی (دینا) قرآن کہتا ہے: جو دیتا ہے، اللہ اس کے لیے آسانی پیدا کر دیتا ہے۔ اطلاق 1 اپنے گھر میں خیر بانٹنے کی عادت ڈالیں۔ 2 تنہا کھانا مت کھائیں، کسی ایک کو ضرور شریک کریں۔ 3 وقت دیں، توجہ دیں، ایک اچھی بات بھی صدقہ ہے۔ 4 اپنے خاندان کے کمزور رشتوں کا سہارا بنیں۔ سخاوت کا فائدہ پہلا انسان کو خود ہوتا ہے: دل ہلکا ہوتا ہے، ذہن صاف ہوتا ہے، راستے کھلتے ہیں۔ 4 تقوی کو عملی شکل دیں تقوی صرف عبادت کا نام نہیں۔ یہ عملی زندگی میں حلال، سچائی، اور انصاف کو اختیار کرنے کا فیصلہ ہے۔ اطلاق 1 کسی کمزور کا حق نہ ماریں۔ 2 زبان میں نرمی رکھیں، غصہ کم کریں۔ 3 آنکھوں کو، کانوں کو، دل کو صاف رکھیں۔ 4 سوشل میڈیا پر جھوٹ، فتنہ، گالی، بے حیائی سے دور رہیں۔ تقوی انسان کے اندر ایک inner alarm system پیدا کرتا ہے جو غلطی پر فورا روک دیتا ہے۔ 5 ”الحسنی” پر یقین رکھیں: نیکی کبھی ضائع نہیں جاتی اللہ وعدہ کرتا ہے کہ جس نے “الحسنی” پر یقین رکھا، یعنی بہترین انجام پر، اس کی راہ آسان کر دی جاتی ہے۔ اطلاق 1 نیکی کا نتیجہ فوری نہ دیکھیں۔ 2 ہر عمل ایک seed ہے، وقت کے ساتھ پھل دیتا ہے۔ 3 آج کے اچھے فیصلے آپ کا کل روشن کرتے ہیں۔ اگر یہ یقین ہو کہ نیکی کبھی ضائع نہیں ہوتی، تو انسان کے اندر طاقت پیدا ہوتی ہے کہ وہ برائی، لالچ، اور حسد سے دور رہے۔ 6 بخل سے بچیں: دل کی تنگی زندگی کو سخت بنا دیتی ہے بخِل (کنجوسی) صرف مال کی کنجوسی نہیں ہوتی۔ وقت، محبت، توجہ، اخلاق، سب میں بخل ہو سکتا ہے۔ اطلاق 1 سلام میں پہل کریں۔ 2 چھوٹی باتیں معاف کر دیا کریں۔ 3 تعریف روک کر نہ رکھیں۔ 4 گھر والوں سے پیار چھپائیں نہیں۔ بخل انسان کی زندگی کو سخت اور بے برکت کر دیتا ہے۔ یہ قرآن کا کھلا اصول ہے۔ 7 استغنا سے بچنا: خود کو بے نیاز نہ سمجھیں استغنا یعنی انسان کا یہ سمجھنا کہ وہ کسی کا محتاج نہیں، یہ دل کو اللہ سے دور کر دیتا ہے۔ اطلاق 1 کامیابی پر غرور نہ کریں۔ 2 اگر مال زیادہ ہو جائے تو عاجزی بڑھا دیں۔ 3 مشکلات میں اللہ کی طرف لوٹیں، دوسروں کی مدد قبول کریں۔ 4 زندگی کے ہر مرحلے میں احساس رکھیں کہ ہر چیز عطا ہے، حق نہیں۔ جس کے اندر شکر اور انکساری ہو وہ غرور سے بچ جاتا ہے۔ 8 نیکی میں اخلاص پیدا کریں سور اللیل بتاتی ہے کہ بہترین مومن وہ ہے جو نیکی اس لیے کرے کہ اس کا دل پاک ہو، نہ کہ لوگ تعریف کریں۔ اطلاق 1 جو نیکی کریں، کسی کو بتائے بغیر کریں۔ 2 دل میں خیال آئے کہ لوگ کیا کہیں گے تو فورا نیت کو درست کریں۔ 3 عبادات میں دکھاوا نہ کریں۔ اخلاص اعمال کو نور میں بدل دیتا ہے۔ 9 برائی سے بچنے کی طاقت پیدا کریں سور اللیل کہتی ہے کہ وہی شخص بدترین انجام پاتا ہے جو حق کو جھٹلاتا ہے اور منہ موڑ لیتا ہے۔ اطلاق 1 غلطی ہو جائے تو فورا رکیں، ضد نہ کریں۔ 2 حق بات سن کر دل سخت نہ کریں۔ 3 غلط محفل، غلط دوست، غلط گفتگو کو فورا چھوڑ دیں۔ 4 غلطی پر انکار کے بجائے اصلاح کریں۔ یہی وہ چیز ہے جو انسان کے دل کو زندہ رکھتی ہے۔ 10 اللہ کی رضا کو اپنا مقصد بنائیں آخر میں قرآن وعدہ کرتا ہے: ولسوف یرضی وہ بندہ اللہ کی رضا پا لے گا۔ اطلاق 1 ہر دن کی نیت یہی ہو کہ آج میں اپنے رب کو راضی کرنے کی کیا کوشش کروں گا؟ 2 لوگوں کی رائے کم اہم رکھیں، اللہ کی رائے زیادہ۔ 3 کسی کا حق نہ ماریں، کسی کو تکلیف نہ دیں۔ 4 اپنے دل کے اندر ایک معیار بنا لیں کہ کون سا عمل مجھے رب کے قریب کرتا ہے اور کون سا دور کرتا ہے۔ جب مقصد اللہ کی رضا بن جائے تو زندگی آسان، پرسکون اور بابرکت ہو جاتی ہے۔
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here