تاریخِ میں حضرتِ انسان کی تفریح کیلئے کھیلوں کے مقابلے تو ہمیشہ سے مروج رہے ہیں لیکن باقاعدہ منظم اسپورٹس کا مربوط نظام ریڈیو اور پھر خاص طور پر ٹیلی وژن کی ایجادات کے بعد وجود میں آیا ہے۔ جدید اولمپکس کا آغاز تو ہو گیا تھا لیکن کھلاڑیوں کا رضا کار ہونا ضروری تھا۔ پیشہ ور کھلاڑیوں کو ان کھیلوں میں شرکت کی اجازت ہی بہت بعد میں جا کر ملی۔ مغربی دنیا میں تقریبا ایک صدی قبل کھلاڑیوں کو باقاعدہ تنخواہیں دینے کا سلسلہ شروع ہوا لیکن یہ مشاہرے بہت معمولی ہوتے تھے۔ رفتہ رفتہ یہ کھیل الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اتنے مقبول ہوئے کہ باقاعدہ پروفیشنل لیگز وجود میں آگئیں اور منظم اسپورٹس نے ایک بہت بڑی صنعت کی حیثیت اختیار کر لی۔ کسی نے خوب کہا تھا کہ!
کھیل زندگی کے تم کھیلتے رہو یارو
ہار جیت کوئی بھی آخری نہیں ہوتی
امریکہ میں بیس بال، فٹ بال، باسکٹ بال اور آئس ہاکی جیسے کھیل اتنے مقبول ہوتے گئے کہ تقریبا ہر بڑے شہر میں ان کیلئے وسیع و عریض اسٹیڈیم بنائے جانے لگے اور ذرائع ابلاغ کے توسط سے کثیر مقدار میں ڈالر کمائے جانے لگے کہ امریکہ کی سیاسی اسٹیبلشمنٹ بھی ان کے اثرات سے محفوظ نہ رہی۔ بلکہ منظم اسپورٹس کے ادارے نظامِ سیاست کے مضبوط ستون بن گئے۔ آج یہی کھیل تفریح فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ معیشت و معاشرت پر بھی بھرپور اثرات رکھتے ہیں۔ ہر حکومت یہی چاہتی ہے کہ عوام اپنے وقت کا زیادہ سے زیادہ حصہ ان کھیلوں پر صرف کریں تاکہ انہیں حکمرانی کرنے میں آسانی ہو لیکن مسعود احمد نے تو یہ کہا تھا کہ!
عدم کے ساتھ کھڑے ہیں وجود کچھ بھی نہیں
یہ زندگی ہے فقط کھیل کود کچھ بھی نہیں
اپنی امریکی زندگی کے چالیس سالوں میں ہمیں صرف تین چار مرتبہ ہی ایسا موقع ملا کہ پروفیشنل اسپورٹس کو ان کے اسٹیڈیم میں جا کر دیکھا جاسکے۔ وقت کی کمی اور عدم دلچسپی دو بڑی وجوہات رہیں۔ اب چونکہ ہمارے بچوں کا دور شروع ہو چکا ہے تو ان کے دیگر مطالبات کے علاوہ ایک مطالبہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم ان کے ساتھ اسٹیڈیم جا کر کچھ دیر کیلئے کھیلوں کی دنیا میں گم ہو جائیں۔ چند دن قبل باسکٹ بال کے عظیم کھلاڑی لبران جیمز نے فلاڈیلفیا آکر یہاں کی ٹیم سکسرز کے خلاف کھیلنا تھا۔ بچوں کے بے حد اصرار پر اور لبران کی محبت میں، ہم نے بالآخر اسٹیڈیم جانے کی حامی بھر لی۔ شرط یہ تھی سیٹیں اچھی ہونی چاہئیں تاکہ کھلاڑیوں اور انکے کے کھیل کو قریب سے دیکھا جا سکے۔ چھوٹے بیٹے بلال نے کمال مہارت سے بہت اچھی سیٹیں حاصل کر لیں تو دونوں بیٹوں اور داماد کی معیت میں ہم بھی کھیل کے میدان تک جا پہنچے۔ کسی بھی کھیل میں ہارنے کا ڈر تو لگا ہی رہتا ہے لیکن عامر امیر کا یہ شعر بھی تو موجود ہے کہ!
تم اپنی شرطوں پہ کھیل کھیلو ، میں جیسے چاہوں لگاں بازی
اگر میں جیتا تو تم ہو میرے ،اگر میں ہارا ، تو میں تمہارا
اسٹیڈیم کی عمارت کے اندر داخل ہوئے تو بڑی بڑی ایل ای ڈی اسکرینوں اور جدید اسپیکرز سسٹم نے ایک اودھم مچایا ہوا تھا۔ آج نئی ٹیکنالوجی نے واقعی بہت کچھ تبدیل کردیا ہے۔ بہرحال بچوں کی رہنمائی میں اپنی مخصوص سیٹوں تک جا پہنچے تو حالات کچھ نارمل ہوئے۔ کھیل شروع ہونے میں ابھی آدھے گھنٹے کا وقت رہتا تھا۔ کچھ دیر میں ہی کھلاڑی پریکٹس کیلئے پہنچ گئے۔ ان ماہر کھلاڑیوں کے شاٹس کو بہت قریب سے دیکھا تو بڑا مزہ آیا۔ باسکیٹ بال فلور پر ہر چند منٹ بعد کوئی نہ کوئی ایکٹیو ٹی ہوتی رہی لیکن وقت کی ایسی پابندی کہ ایک سیکنڈ کی بھی تاخیر نہیں ہوئی۔ ٹی وی ٹائم کی ضرورت بھی شاید یہی وقت کی سخت پابندی ہوتی ہے۔
اصل کھیل شروع ہوا تو آغاز سے ہی مقابلہ کانٹے کا رہا۔ آخری چار پانچ سیکنڈز تک کوئی ٹیم بھی جیت سکتی تھی۔ہم لوگ لبران جیمز کی ٹیم لیکرز کی حمایت کر رہے تھے جبکہ زیادہ تر تماشائی مقامی ٹیم سکسرز کے حامی تھے۔ ویسے تو فلاڈلفیا کے تماشائیوں کی شہرت اتنی اچھی نہیں ہے لیکن پتا چلا کہ باسکٹ بال دیکھنے والے بہت بہتر ہیں۔ زیادہ شرپسند فٹ بال والے تماشائی ہیں۔ بہرحال کھیل کے آخری لمحات میں ہماری ٹیم جیت گئی اور ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے، بڑے فاتحانہ انداز سے باہر نکلے۔
کھیل کے میدان میں چند گھنٹے گزارے تو یہ اندازہ ہوا کہ منظم اسپورٹس نے کافی ترقی کرلی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے ساتھ ساتھ، ہزاروں افراد کی روزی روٹی کا بھی خوب انتظام ہو رہا ہے۔ شہر کے چیدہ چیدہ ماہرین کا تعارف اور انہیں ایوارڈ دینے کا سلسلہ بھی اسی پلیٹ فارم سے جاری ہے۔ امریکی زندگی کا یہ انتہائی روشن پہلو البتہ اس وقت دھندلا ہو جاتا ہے جب ان کھیلوں پر جوئے کھیلنے کے قانونی مواقع فراہم کیئے جاتے ہیں۔ اس منظم جوئے پر تو حکومت کی گہری نظر رہتی ہے لیکن غیر قانونی طریقے پر کھیلے جانے والے جوئے کا تو کوئی سدِباب اور کنٹرول بھی ممکن نہیں۔آجکل پوری دنیا میں، منظم اسپورٹس پر روزانہ ہزاروں خبریں اور سینکڑوں تجزیاتی مضامین لکھے جاتے ہیں۔ اسپورٹس جرنلزم تو اب یونیورسٹیوں میں باقاعدہ پڑھایا بھی جاتا ہے۔ ٹی وی اور ریڈیو پر تقریبا ہر کھیل کے اپنے چینلز موجود ہیں۔ سوشل میڈیا بھی لمحے لمحے کی خبریں اور افواہیں پھیلانے پر مامور ہے۔ اسکولوں اور کالجوں کی اپنی ٹیمیں بھی ہیں جہاں مستقبل کے مای ناز کھلاڑی تربیت پاتے ہیں۔ کلبز اور اکیڈیمیز بھی مختلف کھیل سکھانے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ صدیوں پہلے، مستقبل کے شاعر غالب نے بالکل سچ کہا تھا کہ
بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے
٭٭٭













