پاکستان سیاسی بحران سے دوچار

0
19

اسلام آباد (پاکستان نیوز) پاکستان میں ہونے والے حالیہ الیکشن نے ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرنے کی بجائے نئے سیاسی بحران سے دوچار کر دیا ہے جس کی بڑی وجہ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کو قرار دیا جا رہا ہے ، سیاسی جوڑ توڑ کی غیر سنجیدہ کاوشوں کی وجہ سے حکومت سازی میں مشکلات درپیش ہیں ، حالیہ انتخابات کے دوران ملک کے طاقتور فوجی رہنماؤں کو وہ نتیجہ نہیں ملا جس کی وہ بظاہر تلاش کر رہے تھے، پاکستانی ووٹرز نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ خاندانی سیاست سے اپنی ناراضگی کا اظہار پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے وابستہ آزاد امیدواروں کو ووٹ دے کر کیا جو کہ اس وقت جیل میں ہیں۔71 سالہ عمران خان کے زیادہ تر نوجوان حامیوں نے بہت سی مشکلات پر قابو پالیا ہے، انتخابی نتائج نے عمران خان کے اتحادیوں کو کسی بھی دوسری پارٹی کے مقابلے میں زیادہ نشستیں دی ہیں، لیکن یہ اکثریت نہیں ہے، 2018 میں بھی، پی ٹی آئی کو صرف ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اتحادی مل گئے تھے۔پاکستان کی ہر بڑی سیاسی شخصیت نے، کسی نہ کسی وقت، ملک کی حکومت میں حصہ لینے کے لیے جرنیلوں کے ساتھ ملی بھگت کی ہے۔ ہر ایک مستقل ریاستی ڈھانچے کی اونچ نیچ کا بھی شکار رہا ہے۔ پاکستان کے لیے مثالی نتیجہ یہ ہو گا کہ فوج سیاست سے دستبردار ہو جائے اور سیاست دانوں کے لیے فوج کو سیاسی تنازعات کا حتمی ثالث بننے دینے کے بجائے ایک دوسرے کے ساتھ سمجھوتہ کرنا ہو گا لیکن یہ 8 فروری کے انتخابات کے بعد یہ اور بھی ایک خواب کی طرح لگتا ہے۔ عمران خان کی سیاست کا مکمل محور یہ رہا ہے کہ ان کے سیاسی حریف یا تو بدمعاش ہیں یا غدار۔ اس نے ہمیشہ فوج کے ساتھ معاملات کو ترجیح دی ہے اور اب وہ اپنے لیے زیادہ طاقت کیلئے اپنی مقبولیت کا فائدہ اٹھانا چاہیں گے۔ سیاسی حریف فوج کی آشیرباد سے اکٹھے ہو کر اگلی مخلوط حکومت بنانے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ستم ظریفی یہ ہے کہ اگرچہ رائے دہندگان فوجی اشرافیہ کو سرزنش کرنا چاہتے ہوں گے، لیکن عمران خان سمیت مختلف سیاسی اداکاروں کا طرز عمل فوج کے سیاسی کردار کو جاری رکھنے کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ سیاست دانوں کے درمیان نیک نیتی سے بات چیت کے لیے آمادگی کو چھوڑ کر، اتحادی سیاست کو اب بھی سودے کی دلالی کے لیے کسی کی ضرورت ہوگی۔ اور اگر سڑکوں پر تشدد ہوتا ہے، تو لوگ دوبارہ فوج سے امن بحال کرنے کا نعرہ لگا سکتے ہیں۔دریں اثنا، شخصیت پر مبنی سیاست کے درمیان، پاکستان کے سیاست دانوں نے ملکی معیشت کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا ہے اور خارجہ تعلقات کو بگاڑ دیا ہے۔ پاکستان کو اگلے دو سالوں میں 28 ارب ڈالر کے قرضے واپس کرنے ہیں۔ موجودہ قرضوں کی خدمت اور دیوالیہ پن سے بچنے کے لیے اسے دوبارہ قرض لینا پڑ سکتا ہے۔نئی حکومت کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ ایک نئے بیل آؤٹ پیکج پر مذاکرات کرنا ہوں گے اور پاکستان کے روایتی حمایتی چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے تعاون حاصل کرنا ہوگا۔ تمام عطیہ دہندگان اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کو مزید رقم قرض دینے سے قبل معاشی اصلاحات کو نافذ کرنا چاہئے۔ قرض دہندگان کے ساتھ گفت و شنید کے لیے قومی اتحاد کی حکومت بہتر طور پر رکھی جا سکتی ہے۔ اس کے بجائے، پاکستان کی سیاست پہلے سے کہیں زیادہ پولرائزڈ ہے، اس کا معاشرہ مزید بکھرا ہوا ہے۔امریکہ نے پاکستان کے انتخابی میدان سے دور رہ کر، انتخابی بے ضابطگیوں کے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کرنے اور یہ کہنے کے علاوہ کہ جو بھی منتخب حکومت اقتدار سنبھالے گی ،امریکہ اس کے ساتھ کام کریگا۔ افغانستان سے انخلاء کے بعد پاکستان میں امریکی دلچسپی نمایاں طور پر کم ہو گئی ہے، جیسا کہ امریکی فوجی اور اقتصادی امداد بھی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here