جس دیس سے ماﺅں بہنوں کو اغیار اٹھا کر لے جائیں

0
5008

آج دل کہتا ہے کہ میں جی بھر کے روﺅں، چیخوں، چلاﺅں، آج میرا دل رو رہا ہے، آج میرا دکھ اتنا بڑھ گیا ہے کہ لگتا ہے آج میرا دل پھٹ جائےگا، آج اقتدار کے ایوان مذبحہ خانے لگنے لگے ہیں، جہاں انسانی ضمیر کو ذبح کیا جاتا ہے بڑی بڑی باتیں کرنے والے جب ان ایوانوں کے اندر پہنچ جاتے ہیں تو ان کے ضمیر مردہ ہو جاتے ہیں، انسانوں کی چیخیں ان ایوانوں میں جانے والوں کو سنائی نہیں دیتیں، یہ بہرے اور گونگے ہو جاتے ہیں، ان کا احساس مر جاتا ہے، ان کے کانوں میں روئی ٹھونس دی جاتی ہے، ان کی آنکھوں پر پردے پڑ جاتے ہیں، ان کی زبانوں پر تالے ڈال دیئے جاتے ہیں، ان کے احساسات مر جاتے ہیں، کیوں ان لوگوں نے تمنا و تگ و دو کی تھی اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کی اگر ان لوگوں میں کچھ کر گزرنے کی ہمت نہیں تھی، کیوں ہمیں سنہرے خواب دکھائے تھے، کیوں ہمیں ظلم و جبر سے نجات دلوانے کے دعوے کئے تھے، کیوں ہمیں اندھیرے میں ایک شمع کی روشنی دکھلائی تھی، ہماری سوئی ہوئی امیدوں کو جگایا تھا، ہمیں مایوسی کے اندھیرے میں ہی مرنے دیتے کیوں ہماری آس بندھوائی تھی، کیوں ہمیں جیتنے کی آس دلوائی تھی، ہماری نا امیدی ہی بہتر تھی، کیوں ہمیں امید دلوا کر نا امید کیا۔ وہ ایک بار کا مرنا اچھا تھا تم نے تو ہمیں بار بار مار دیا اور ہر بار زندگی کا وعدہ کیا، تم تو ان چور لٹیروں اور سوداگروں سے بھی بد تر ہو جن کے بارے میں ہم کم از کم جانتے تھے کہ ان سے بہتری کی کوئی امید نہیں ہے تم نے تو کہا تھا کہ اس بار موقعہ دیکر تو دیکھو ہم نے تم پر بھروسہ کیا اور تم نے ہمیں مٹھائی دی جو ہم نے مٹھائی سمجھ کر کھا لی تم نے تو اس میں زہر ملا کر رکھا ہوا تھا تم نے تو ہمیں مار دیا ہم نے تم پر اعتبار کیا اور تم نے ہمیں دھوکا دیا ہم نے اس سے پہلے بھی دھوکے کھائے تھے لیکن تم ایک خوبصورت چمکنے والا دھوکا ہو اب ہم جان گئے ہیں جس پیتل کو ہم سونا سمجھ بیٹھے تھے وہ تو پیتل بھی نہیں ہے۔ نہ صرف تمہاری چمک دکھاوے کی تھی تم میں تو پیتل کی مضبوطی بھی نہیں تم تو کمزور مٹی کی بنی ہوئی مورتی ہو جس پر سونے کا ورق چڑھا دیا گیا تھا ہم سے بڑی بُھول ہوئی، ہم سے پہلے بھی بھول ہوئیں تھیں ہم تو جھیل جائیں گے، مگر تم کیا کرو گے جس نے بڑی بڑی باتیں کیں تھیںِ بڑے بڑے وعدے کئے تھے، کیا کل جب تمہیں اقتدار سے الگ کر دیا جائےگا اور تم آئینے کے سامنے کھڑے ہو گے تو کیا اپنا عکس آئینے میں دیکھ کر آئینے کا سامنا کر پاﺅگے، شاید اس وقت تک تمہارا ضمیر کب ک امر گیا ہوگا، تمہیں کوئی شرمندگی نہیں ہوگی، لیکن اجتماعی ذہانت کے اذہانوں میں بھوک ہے، بلکتے ہوئے بچوں کی آہوں میں، نیلام شدہ بچیوں کی سسکیوں میں، غریبوں، مزدوروں، کسانوں اور مظلوموں کی چیخوں میں تمہارے دھوکے کی فریاد تاریخ کے اوراق پر ہمیشہ کیلئے رقم کر دی جائیگی۔ اور تاریخ تمہیں کبھی معاف نہیں کرےگی۔ تم نے اس دکھی اور ٹوٹی ہوئی عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیئے ہیں ان کو اس قابل نہی چھوڑا کہ وہ کسی پر آئندہ بھروسہ کر پائیں، تم نے بہت بڑا ظلم کیا، تم تو اسلام کے سپاہی تھے تم نے تو حلف اٹھایا تھا کہ تم قوم کی حفاظت اپنی جان کی قربانی سے کروگے، آج کشمیر کی بیٹیاں تمہیں پکار رہی ہیں، آج کشمیر کی بیٹیوں کی اجتماعی عصمت دری ہو رہی ہے، کہاں ہے وہ تمہاری طاقت، وہ تمہاری بندوقیں جو نہتے عوام کا سینہ چھلنی کرنے کیلئے استعمال ہوتی ہیں، آج ماﺅں، بیٹیوں اور بہنوں کیلئے تمہاری غیرت نہیں جاگتی؟؟؟ فیض نے سچ کہا ہے کہ!
جس دیس سے ماﺅں بہنوں کو اغیار اٹھا کر لے جائیں
جس دیس سے قاتل غنڈوں کو اشراف چھڑا کر لے جائیں
جس دیس کی کورٹ کچہری میں انصاف ٹکوں پر بکتا ہو
جس دیس کا منشی قاضی بھی مجرم سے پوچھ کر رکھتا ہو
جس دیس کے چپے چپے پر پولیس کے ناکے ہوتے ہوں
جس دیس کے مندر مسجد میں ہر روز دھماکے ہوتے ہوں
جس دیس میں جان کے رکھوالے خود جانیں لیں معصوموں کی
جس دیس کے حاکم ظالم ہوں، سسکی نہ سنیں مجبوروں کی
جس دیس کے عادل بہرے ہوں، آہیں نہ سنیں معصوموں کی
جس دیس میں بنت حوا کی چادر بھی داغ سے میلی ہو
جس دیس میں آٹے چینی کا بحران حلق تک جا پہنچے
جس دیس کے ہر چوراہے پر دو چار بھکاری پھرتے ہوں
جس دیس میں غربت کے ہاتھوں مائیں بچے نیلام کرتی ہوں
جس دیس میں دولت شرفاءسے ناجائز کام کرواتی ہو
جس دیس میں عہدیداروں سے عہدے نا سنبھالے جاتے ہوں
جس دیس کے سادہ لوح انسان وعدوں پہ ہی ٹالے جاتے ہوں
اس دیس کے ہر ایک لیڈر پر سوال اٹھانا واجب ہے
اس دیس کے ہر ایک حاکم کو سولی پر چڑھانا واجب ہے
فیض احمد فیض
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here