اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6ججوں کی شکایت! !!

0
14
پیر مکرم الحق

پچھلے دنوں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں نے چیف جسٹس پاکستان کو ایک مشترکہ شکایت ایک درخواست یا خط کی صورت میں ارسال کی کہ طاقتور حلقوں کی طرف سے ہم پر دبائو ڈالا جاتا ہے اور کبھی کبھی یہ دبائو بلیک میلنگ کی صورت اختیار کرلیتا ہے! انہوں نے خفیہ اسمبلیوں پر بھی الزام لگایا کہ انکی خواب گاہوں میں خفیہ کیمرے لگائے اور ایک جج کے بردار نسبتی کو اغوا کیا گیا جس پر تشدد کرکے جھوٹے یا من گھڑت بیان لکھوائے گئے۔ بالکل مانتے ہیں کہ آپ پر ظلم ہوا ہے لیکن جناب اعلیٰ آپ یہ ظلم برداشت کرنے کیلئے ایک لمبی فہرست مراعات کی بھی تو وصول کرسکے ہیں اور پھر جب آپ دبائو میں آکر غلط فیصلے کرتے ہیں تو پاکستان کے غریب اور بے بس لوگ ان غلط فیصلوں کا شکار ہوتے ہیں۔ آج آپ کا ضمیر اتنے عرصہ بعد کیوں جاگا؟ کیا یہ عمل کچھ دنوں سے ہو رہا ہے یا کئی دہائیوں سے ہو رہا ہے۔ نیب کے کئی مقدمات میں جن لوگوں پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوتا تھا۔ محض سیاسی دبائو ڈالنے کے لئے دی گئی سزائوں کی اپیل جب آپ کے پاس آتی تھی تو آپ اسے سننا گوارہ نہیں کرتے تھے۔ اس لئے کہ آپ کو پتہ تھا کہ ان مقدمات کے پیچھے طاقتور لوگ نہیں۔ ان لوگوں کی آپ نے بغیر دبائو کے بھی بحال رکھیں کیونکہ آپ جو مشاہیر اور مراعات لے رہے تھے انہیں کھونا نہیں چاہتے تھے جب آپ کے ساتھی کو شدید دبائو میں ڈالا گیا اور اس کے انکار کی وجہ سے انہیں اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑا تو بھی آپ کا ضمیر نہیں جاگا شوکت عزیز صدیقی ایک قابل لائق باضمیر جج تھے چاہتے تو وہ بھی طاقتوروں کے سامنے سرجھکا کر انکی خواہش پر چلتے رہتے۔ ایک جج کی ذمہ داری پھولوں کا سیج نہیں بلکہ اگر اسے وہ عبادت سمجھ کر انجام دے تو یہ کانٹوں کا سیج ہے۔ گوگل کی بڑی تنخواہ والی ملازمت نہیں کیونکہ آپ کے کئے گئے فیصلوں سے لوگوں کی زندگیاں تباہ بھی ہوسکتی ہیں۔ بدعنوان لوگوں نے تو اپنی جان پلی بارگین کرکے چھڑالی ہوتی ہے جنہوں نے بے پناہ ناجائز دولت نہیں اکٹھی کی ہے اور کسی سیاسی معاملے کی وجہ سے طاقتور لوگ انہیں سزائیں دلوانے پر مصر ہوں انہیں جب آپ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور پیش کیا جاتا رہا ہے تو آپ ایسے مقدمات کو گرہ جاسکے ہوئے انگارے کی طرح ہاتھ نہیں لگاتے اور وہ بے قصور لمبی قید کاٹ کر جب باہر نکلتا ہے تو اس کا نبرد زہرا کے باوجود آپ نے شوکت صدیقی، بھگوان داس دراب پٹیل اور جسٹس کیانی کی طرح اپنے منصب کے ساتھ انصاف کیا اور آپ کے کمپورائیز کرنے حالات کے ساتھ سمجھوتا کرنے کی وجہ سے جو لوگ تباہ وبرباد ہوئے وہ کس سے شکایت کریں جو گھر اجڑ گئے بچے دربدر ہوگئے لوگوں نے خودکشیاں کرلیں کچھ آج بھی جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ غریب الوطنی بھی بڑی سزا ہے جب آپ کو اپنی دھرتی، اپنے شہر اپنے گائوں سے دور کردیا جائے اور ایسے ماحول میں دھکیل دیا جائے جہاں پر آپ کو اپنی زندگی کے آخری ایام تن تنہا کسمپرسی کے حالات میں جینا پڑے تو میری نظر میں یہ سزا عمر قید سے بھی زیادہ ہولناک ہوتی ہے جیل میں اپنے پیاروں سے تو کبھی کبھی ملاقات ہوجاتی ہے۔ خود کردہ جلاوطنی ایک عذاب سے کم نہیں۔ ان زندگیوں کو کون انصاف دیگا؟ بیشک اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے اور اللہ کے پاس دیر ہے اندھیر نہیں۔ ایک لمحہ کے لئے آپ سب جج صاحبان تصور کریں کہ آپ سب متحد ہو کر اور یہ طے کریں کہ آپ دبائو میں آکر کوئی فیصلے نہیں کرینگے تو یہ طاقتور لوگ کیا کرینگے؟ کیا سب جج صاحبان کو فارغ کرینگے؟ پھر اگر وکلا تنظیمیں بھی فیصلے کریں کہ ان نکالے گئے ججوں کی جگہ اور کوئی نہیں پر کریگا اور جو وکلاء اس ضمیر فروش کا حصہ بنیں گے ان کو ساری کالی بھیڑیں سمجھ کر انکا حقہ پانی بند کرینگے۔ آپ معاشرے کے آخری بند ہیں۔ عوام آپ سے توقعات وابستہ کئے بیٹھی ہے کہ آپ انہیں ظلم واستبداد سے بچائیں گے اور اگر آپ لوگ بھی اپنی ملازمتیں اور مراعات بچانے کے لئے دبائو میں آکر انصاف کا سودا کردیں تو پھر یہ ناتواں، مظلوم اور پسے ہوئے لوگ کس کا دروازہ کھٹکائیں گے۔ بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما تو ایک دن جیل میں تو دوسرے دن اقتدار کے مزے لوٹنے آجاتے ہیں۔ مارے تو بیچارے سیاسی کارکن جاتے ہیں ان کو جیل میں دو دن کیلئے اہمیت دی جاتی ہے ملاقاتیں بھی ہوجاتیں ہیں لیکن پھر وہ قربانی کے بکرے بن کر تن تنہا زندگی کے دکھ جھلتے ہیں انکے پاس تو اتنے پیسے بھی نہیں ہوتے کہ وہ لطیف کھوسہ یا بابراعوان کی مہنگی فیس ادا کرکے اپنے مقدمات لڑسکیں۔ وکیلوں کی فیسیں لاکھوں سے بڑھ کر کروڑوں میں آگئیں ہیں۔ جج صاحبان فیصلے بھی اگر طاقتوروں کے دبائو میں آکر کرینگے تو ایک عام سیاسی کارکن کا کیا بنے گا اسے کون انصاف دلائیگا۔ چیف جسٹس صاحب ان جج صاحبان کے فیصلے کے ساتھ ان سائلین کا بھی فیصلہ کریں جنہیں سنیں بغیر ان جج صاحبان نے انکی سزائیں بحال رکھیں۔ عوام کے ہاتھ انصاف کریں پہلا حق انکا ہے۔ حد چاہیئے سزامیں عقوبت کے واسطہ آخر گناہ گار ہیں۔ کافر نہیں ہیں ہم!!!
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here