پیر مکرم الحق،انڈیانا
mukarampeer@gmail.com
صدر ٹرمپ کو تو انکا غرور، ہٹ دھرمی اورجھوٹ لے ڈوبا، انتخابات سے پہلے ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ ٹرمپ کیلئے انتخابات میں جیتنامشکل ہے بہرحال پھر بھی ماننا پڑیگا کہ کرونا وائرس سے صحتیاب ہونے کے فوراً بعد انہوں نے کافی محنت کی اور انتخابی جلسوں کی بھرمار کردی ،ایک دن میں پانچ جلسے کرنا کوئی آسان کام نہیں تھالیکن ”مرتا کیانہ کرتا“ کے مصداق2020ءکے انتخابات صدر ٹرمپ کے لئے زندگی موت کا مسئلہ تھا۔انہوں نے حکومت میں رہتے ہوئے جو بے قائدگیاںکی ہونگی وہ جب آہستہ آہستہ منظر عام پر آئینگی۔تو عوام کی آنکھیں حیرانی سے کھلی کی کھلی رہ جائینگی اور یہ بھی ایک مستند حقیقت ہے کہ صدر ٹرمپ نے حکومتی دائرے کی اہم شخصیتوں سے نہ صرف ٹکر لی بلکہ انہیں ذلیل وخوار بھی کیا جو اب وقت کے انتظار میں اپنی اپنی چھریاں بھی تیار کر رہے ہونگے۔اپنی مذمت کا انتقام لے پائیں۔بہرحال یہ تو آنے والا وقت ہی بتائےگاکہ صدر ٹرمپ کے ساتھ کورٹ کچہریاں یعنی عدالتی کارروائیوں کی بھرمار تو ہوگی۔ایک دفعہ وہ اپنی کرسی، اقتدار سے اتر آئیں تو سہی!آخر کار اتنی مضبوط حمایت کے باوجود آخر صدر ٹرمپ کیسے شکست سے دوچار ہونگے؟۔
اگر تو کرونا وائرس نہیں آتا اور اس سے پہلے کی طرح معیشت ترقی کرتی رہتی تو صدر ٹرمپ کو کوئی بھی شکست نہیں دے سکتا تھا۔ٹرمپ کے سارے دور حکمرانی میں عذاب الٰہی اور آفتوں کی بھرمار پے درپے آتی رہیں، سمندری طوفانوں اور جنگل کی آگ کی تباہ کاریوں سے ابھی جان ہی نہیں چھوٹی تھی کہ کرونا وائرس نے پکڑ لیا نہ صرف امریکی معیشت کو بلکہ خو ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اس موذی مرض کا مزہ بنفس نفس چکھ لیا۔جوکہ خود کہتے کہتے نہیں تھکتے تھے کہ کرونا وائرس ایک زکام کی طرح ہے اور کچھ نہیں ،میرے مخالفوں نے اسے ہوا بنایا ہوا ہے جسکو انگریزی میںHOAXکہتے ہیں۔ٹرمپ نے چہرے کے نقاب یا ماسک کو کمزوری سے تشبیح دی اور جب تک اس مرض کا شکار نہیں ہوئے ماسک نہیں پہنا۔انہوں نے ماسک کو ایک سیاسی بیانیہ بنا دیا جسکی وجہ سے انکی حمایت کرنے والوں نے بھی ماسک کی احتیاطی تدابیر سے بغاوت کردی اور ماسک سے گریز کرنے لگے۔دکانوں اور مارکیٹوں میں ٹرمپ کے پیروکاروں نے ماسک کی پابندی کو شخصی آزادی پر حملہ قرار دے دیا ، ماسک پہنے اور نہ پہننا ایک سیاسی مسئلہ بنا دیا گیا، شہر بند ہونا شروع ہوگئے، چھوٹے کاروبار بند ہونا شروع ہوگئے ،بیروزگاری2اشاریہ ایک سے بڑھ کر10فیصد تک تجاوز کر گئی۔اس طرح اس معرکہ(انتخابات)کاموضوع معیشت سے بدل کر کرونا بن گیا۔جس میں عوام کی اکثریت نے محسوس کیا اس تنزلی اور معاشی تباہی کا ذمہ دار خود ٹرمپ اور انکی ناکام حکمت عملی ہے جبکہ انکے مخالف ڈیموکریٹک پارٹی کے جوبائیڈن اسرار کرتے رہے کہ کرونا وائرس کی تباہ کاریوں سے بچنے کا فوری حل ماسک کا استعمال ہی ہے۔بہرحال شکست کے بعد بھی صدر ٹرمپ نے جوبائیڈن کی انتخابی کامیابی کو نہ صرف تسلیم نہیں کیابلکہ عدالتی کارروائیوں میں مصروف ہوگئے ہیں۔حیرت کی بات ہے کہ عالمی سطح پر مختلف ممالک کی عوام نے جوبائیڈن کی فتح کو اپنی فتح کی طرح منایا۔عالمی رہنماﺅں نے سکھ کا سانس لیا یورپی رہنماﺅں نے ٹرمپ سے گلوخلاصی کو معمول زندگی میں نارملائیزیش کی طرف قدم جانا ہے۔
ماسوائے چند گنے چنے حکمرانوں نے کوئی ردعمل ظاہر نہیںکیا ہے۔ٹرمپ ذاتی طور پر بھی آمرانہ طرز حکومت کے مداح ہیں۔محمد بن سلیمان، روسی صدر پیوٹن اور ہندوستان کے نریندر مودی انکے ذاتی دوستوں کی طرح ہیں۔اسی طرح چین نے بھی کسی رائے کا اظہار نہیں کیا ہے۔اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو بھی ٹرمپ کے بہت قریبی احباب میں شامل ہیں انہی کی خوشنودی کیلئے ٹرمپ نے کچھ عرب ریاستوں کے ساتھ امن معاہدے کروا دیئے ہیں۔حالانکہ تنازع تو فلسطین کی عوام اور اسرائیلی حکمرانوں کے درمیان ہے۔فلسطین کے معاملے میں امن معاہدے کا اختیار صرف اور صرف فلسطینیوں کا ہے۔صدر ٹرمپ کے اقتدار کے خاتمہ کی صورت میں متاثرین کی فہرست میں قابل زکر سربراہان مملکت میں نیتن یاہو سرفہرست ہونگے۔اس کے بعد ہندوستان کے وزیراعظم مودی، سعودی ولی عہد محمد بن سلیمان، اس فہرست کے آخری حصہ میں عمران خان کا نام بھی ضروری شامل ہوگا۔بہرحال جوبائیڈن کی جیت ایک لحاظ سے ماحولیاتی آلودگی کے خلاف مہم کی بھی جیت ہے!۔