مفتی عبدالرحمن قمر،نیویارک
کہتے ہیں اپنے مصاحبین میں کسی احمق انسان کو جگہ نہ دیں، وگرنہ وہ آپ کےلئے درد سر بلکہ شرمساری کا باعث بنے گا اور اپنی چرب زبانی سے آپ کے جذبات سے کھیلے گا اور آپ اپنی صفائیاں پیش کرتے رہ جائیں گے، اس کے نمونے دنیا کی ہر سوسائٹی میں پائے جاتے ہیں مشرقی دنیا ہو یا مغربی دنیا تھوک کے حساب سے ایسے احمق پائے جاتے ہیں لیکن بسا اوقات وہ ہماری مجبوری بن جاتے ہیں یہی وہ لمحہ ہے جب ہم اپنے آپ کو بے بس پاتے ہیں، احمق انسان کے ماتھے پر نہیں لکھا ہوتا بلکہ وہ اپنی عادات سے پہچانا جاتا ہے۔ مولانا جلال الدین رومی اپنی ایک حکایت میں ارشاد فرماتے ہیں کہ کسی آدمی نے حضرت عیسیٰ کو پہاڑ کی جانب جاتے ہوئے دیکھا، اس آدمی نے عرض کی حضور خیر ہے آپ اکیلے پہاڑ کی جانب جا رہے ہیں، اور خوف آپ کے چہرے سے عیاں ہے مگر آپ کے پیچھے دشمن بھی کوئی نہیں، حضرت عیسیٰ نے فرمایا میں ایک احمق انسان سے بھاگ رہا ہوں، آپ نے فرمایا اے انسان تو میری راہ میں حائل مت ہو، اس آدمی نے کہا یا حضرت کیا آپ وہ مسیحا نہیں ہیں جن کی برکت سے اندھا اور بہرہ شفا یاب ہو جاتا ہے آپؑ نے فرمایا جی ہاں میں وہی ہوں کیا آپ وہ بادشاہ نہیں ہیں جو مردے پر کلام الٰہی پڑھتے ہیں تو اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ آپؑ نے فرمایا جی ہاں میں وہی ہوں، پھر اس آدمی نے عرض کی حضور آپؑ وہ نہیں ہیں جو مٹی کے پرندے بنا کر دم پڑھیں تو وہ ہوا میں اُڑنے لگتا ہے آپ نے فرمایا بے شک میں وہی ہوں، پھر اس شخص نے حیرانی سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس قدر طاقت دے رکھی ہے پھر بھی آپ کو خوف کس کا ہے، حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا رب العزت کی قسم جس کے اسم اعظم کو میں نے اندھوں اور بہروںپر پڑھا وہ شفاءیاب ہو گئے، پہاڑوں پر پڑھا پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ گئے۔ میں نے وہی اسم اعظم مردوں پر پڑھا وہی جی اٹھے مگر میں نے اس احمق انسان پر کئی مرتبہ اسم اعظم پڑھا مگر اس احمق انسان پر کوئی اثر نہیں ہوا کیونکہ حماقت ایک بیماری ہی نہیں بلکہ یہ قہر خدا وندی ہے۔ اس لئے میں اس احمق سے اپنے آپ کو بچا رہا ہوں، بابا رومی فرماتے ہیں احمق انسان کی صحبت سے تنہائی بہتر ہے ہمارے قرب و جوار ایسے کئی کردار پائے جاتے ہیں جو ناجائز آپ کی تعریف و توصیف کر کے جگہ بنا لیتے ہیں مگر جو نتیجہ نکلتا ہے وہ بڑا خطرناک ہوتا ہے۔ احمق انسان سے بچو!
٭٭٭