محسن اسلام سیدنا عثمان غنی ذوالنورین رضی اللہ !!!

0
81
مفتی عبدالرحمن قمر
مفتی عبدالرحمن قمر

سرکار دو عالم کے ہر ایک صحابی نے اپنی ہمت طاقت کے مطابق مسلمانوں کی خدمت کی ہے ایک سے ایک بڑھ کر مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے لئے اور اسلام کے نئے شجر کی آبپاری کے لئے خدمت کی جس کی مثال کم ازکم اس دور میں ملنا مشکل ہے۔ مگر ان سب سے بڑھ کر جو خدمت امیر المئومنین حضرت سیدنا عثمان غنی ذوالنورین نے کی ہے اس کی مثال آج بھی ئبر رومہ ہے اور اس سے ملحقہ باغ ہے جس کی آمدن عثمان غنی ٹرسٹ میں جاتی ہے جس سے حجاج کرام کی خدمت کی جاتی ہے۔ قندق عثمان غنی جس کا کرنٹ اکائونٹ آج بھی مسلمانوں کی خدمت کے لئے پیش پیش ہے مسجد نبو ی شریف کی توسیع کیلئے جب اللہ کے پاک پیغمبر نے مسلمانوں کو رغبت دلائی تو سب سے پہلے جو بندہ خدا اُٹھا وہ سیدنا عثمان غنی تھے جو اس زمانے کی خطیر رقوم پچیس ہزار دینار تھے۔ اور غنی کا لقب بھی سرکار دو عالم کا عطا کردہ ہے غزوات میں جتنی خدمت اسلام کے لئے کی اس کی شہادت صحابہ کرام نے دی جو بدر سے لیکر غزوہ تبوک تک شریک جہاد تھے۔ اور غزوہ تبوک میں تو سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے تو کمال کردیا کیونکہ یہ زمانہ مسلمانوں کے لئے ظاہری طور پر انتہائی تنگی کا زمانہ تھا اس لئے غزوہ تبوک کو حبیش العسرہ بھی کہا جاتا ہے۔ سرکار دو عالم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا کون ہے جو آج لشکر اسلام کے سامان کو درست کردے میں وعدہ کرتا ہے کہ میرا ملک اس کے لئے جنت لکھ دے گا۔ حضرت عثمان اٹھے عرض کی ایک سو اونٹ بمعہ سازوسامان میں لشکر اسلام کے لئے وقف کرتا ہوں۔ دوبارہ سرکار نے اعلان کیا آپ پھر اٹھے عرض کی حضور میں دو سو اونٹ بمعہ سازو سامان لشکر اسلام کے لئے وقف کرتا ہوں۔ تیسری مرتبہ سرکار دو عالم نے فرمایا مزید درکار ہے تیسری مرتبہ اٹھے عرض کی حضور تین سو اونٹ بمعہ سازو سامان وقف کرتا ہوں چوتھی مرتبہ سرکار دو عالم اٹھے آپ نے عرض کی حضور مجھے اجازت دیں میں گھر سے ہو کر آتا ہوں۔ گھر تشریف لائے ا یک ہزار اشرفیاں لیں اور سرکار کی خدمت میں پیش کردیں سرکار دو عالم اشرفیوں کو دامن میں ڈال کر اچھال رہے تھے۔ اور فرما رہے تھے عثمان آج کے بعد کوئی کام تجھے نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ نہ صرف سرکار کے زمانے میں حضرت ابوبکر کے دور میں ایک مرتبہ قحط پڑا۔ مدینہ طبیہ میں گندم ختم ہوگئی فاقے آنے لگے انہی دنوں حضرت عثمان غنی کا غلہ شام سے جو ایک ہزار اونٹوں پر لدا ہوا تھا پہنچا تاجر آئے تاکہ غلہ خرید سکیں آپ نے فرمایا کتنا منافع دو گے تاجروں نے کہا ہر دس روپے پر دو روپے دیں گے۔یعنی بارہ روپے آپ نے فرمایا یہ تو بہت کم ہے جب لوگ جانے لگے تو حضرت عثمان نے فرمایا لوگوں گواہ رہنا میں نے بغیر کسی قیمت کے یہ غلہ مدینہ کے غرباء اور مساکین کو دے دیا۔ اب انہیں کسی تاجر سے خریدنے کی ضرورت نہیں حضرت عبداللہ بن عباس نے خواب دیکھا سرکار ترکی گھوڑے پر سوار کہیں جارہے ہیں میں نے پوچھا حضور کہاں تشریف لے جارہے ہیں فرمایا آج میرے عثمان نے مخلوق خدا کے لئے ایک ہزار اونٹ کا غلہ بانٹ دیا ہے میں جنت میں اس کے گھر کی شان وشوکت دیکھنے جا رہا ہوں(رضی اللہ عنہ) ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here