پاکستانی امریکن پبلک کمیٹی (APPAC) کے تعاون سے منعقدہ کمیونٹی استقبالیہ کا انعقاد کیا گیا، نیوجرسی میں اے پی پیک چیپٹر کا قیام، ڈاکٹر محمود عالم نئے چیپٹر کے صدر مقرر، پاکستانی، کشمیری اور انڈین مسلم امریکی کمیونٹیز کی شرکت
ڈاکٹر اعجاز احمد اور ڈاکٹر طارق ابراہیم نے سینیٹر باب منینڈس کے کردار کو سراہا، ڈیموکریٹ پارٹی ہمیشہ امیگریشن اصلاحات کی حامی رہی ہے، آئندہ بھی ان کے حقوق کےلئے کام کرینگے، سینیٹر منینڈس
نیوجرسی (خصوصی رپورٹ) امریکی سینٹ کی فارن ریلیشن کمیٹی کے رینکنگ ممبر اور ڈیمو کریٹک پارٹی کے سینئر سینیٹر باب منینڈس کا کشمیر میں انسانی و بنیادی حقوق کی صورت حال پر بڑا بیان سامنے آیا ہے۔ سینیٹر منینڈس کا کہنا ہے کہ کشمیر میں انسانی و بنیادی حقوق کے حوالے سے جو کچھ ہو رہاہے، وہ کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں۔ مودی حکومت کی جانب سے صورتحال میں بہتری نہ آئی اور ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے خاطر خواہ اقدام نہ لئے جانے کی صورت میں ہم سینٹ میں دوسرے آپشنز پر غور کر رہے ہیں جن میں Appropriation Process یعنی کہ انڈیا کو فراہم کئے جانے والے فنڈز کی فراہمی کو روکنا یا انڈیا کو اسلحے کی فروخت میں رکاوٹ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پرائم منسٹر مودی کو پیغام دیا جائے کہ آپ جو کشمیر میں کر رہے ہیں یہ کسی بھی صورت قابل قبول نہیں اور اس کے نتائج بھی برآمد ہونگے۔ یہ بات انہوں نے پاکستانی امریکن کمیونٹی کی معروف سماجی شخصیت ڈاکٹر طارق ابراہیم کے زیر اہتمام ان کی رہائشگاہ پر کمیونٹی کی اہم و نمائندہ تنظیم ”امریکن پاکستانی پبلک افیئرز کمیٹی“ (اے پی پیک) کے تعاون سے منعقدہ بڑے کمیونٹی استقبالیہ سے خطاب کے دوران کیا۔ تقریب میں اے پی پیک کے چیئرمین ڈاکٹر اعجاز احمد کی جانب سے امریکی ریاست نیو جرسی میں اے پی پیک کے چیپٹر کے قیام اور ڈاکٹر محمود عالم کی نیو جرسی چیٹر کے پریذیڈنٹ کے طور پر تقرری کا اعلان بھی کیا گیا۔ تقریب میں پاکستانی، کشمیری اور انڈین مسلم امریکن کمیونٹیز کی اہم شخصیات اور ارکان نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ استقبالیہ میں ڈاکٹر اعجاز احمد، ڈاکٹر طارق ابراہیم نے سینیٹر باب منینڈس کے امریکی سینٹ میں کردار کو سراہا۔ انہیں امریکہ میں بڑھتی ہوئی پاکستانی کمیونٹی اور اے پی پیک تنظیم کی کارکردگی سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں کمیونٹی کی ہر ممکن تائید کا یقین دلایا۔ ڈاکٹر محمود عالم اور تقریب کے شرکاءنے سینیٹر باب منینڈس کو کشمیر میں انسانی حقوق جبکہ انڈیا میں مسلمانوں سمیت اقلیتوں کے ساتھ روا رکھنے والے امتیازی سلوک و قوانین اور ان کے خلاف تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات سے متعلق اوورسیز کمیونٹیز میں پائی جانے والی تشویش کے بارے میں آگاہ کیا۔ استقبالیہ میں شرکت کے بعد سینیٹر باب منینڈس نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نے گزشتہ سال اکتوبر میں دورہ انڈیا کے دوران اعلیٰ بھارتی حکام سے کہا کہ کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں کہ کشمیریوں کو ایسے حالات میں رکھا جائے کہ جس میں انہیں بنیادی حقوق سے محروم رکھا جائے، لوگوں کوبغیر کسی وجہ سے قید کیا جائے اور انہیں کسی بھی قسم کی مواصلات تک رسائی بھی نہ دی جائے اور کشمیریوں کی زندگی کو جہنم بنا دیاجائے۔ شاید اسی وجہ سے مجھے دورہ انڈیا کے دوران انڈین گورنمنٹ سے وہ استقبال نہیں ملا کہ جس کی توقع تھی۔ انڈیا کے دورے سے واپسی پر میں نے سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو کو دو مختلف خطوط لکھے جن میں کہاگیا کہ وہ امریکی حکومت کی جانب سے انڈیا کے ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ پورے زور سے اٹھائیں لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ اس سلسلے میں (ٹرمپ) انتظامیہ طبع آزمائی کے لئے تیار نہیں ہے کہ کشمیر میں بہتری اور آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرے لہٰذا ہم دوسرے آپشنز پر غور کر رہے ہیں۔ وہ آپشن Appropriation Process یعنی کہ انڈیا کو فراہم کئے جانے والے فنڈز کی فراہمی کو روکنا یا انڈیا کو اسلحے کی فروخت میں رکاوٹ بھی ہو سکتے ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پرائم منسٹر مودی کو پیغام دیا جائے کہ آپ جو کشمیر میں کر رہے ہیں، یہ کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں اور اس کے نتائج بھی برآمد ہوں گے۔ اس سوال پر کہ ایوان نمائندگان کی طرح مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر امریکی سینیٹ میں سماعت ممکن ہو سکتی ہے؟ کے جوواب میں سینیٹر باب منینڈس نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ ایسا ہو۔ لیکن سینٹ کے طریق کار کے تحت صرف سینٹ کی فارن ریلیشن کمیٹی یا جس پارٹی کی کمیٹی اور سینٹ میں اکثریت ہو، وہ کسی اہم معاملہ پر سماعت کا فیصلہ کر سکتی ہے۔ میں نے فارن ریلیشن کمیٹی کے چیئرمین پر زور دے کر کہا کہ وہ کشمیر کے مسئلہ پر کمیٹی میں سماعت کریں۔ اگر میں فارن ریلیشن کمیٹی کا چیئرمین ہوتا تو میں ضرور اس مسئلہ پر سماعت مقرر کرتا۔ کمیٹی چیئرمین کی جانب سے ابھی تک مجھے کوئی جواب نہیں ملا۔ لہٰذا مجھے امید ہے کہ اس سلسلے میں پاکستانی امریکن کمیونٹی سیاسی طور پر متحرک ہو ایسا کسی بھی کمیونٹی کے لئے سیاسی طور پر متحرک ہونا ضروری بھی ہے۔ کمیونٹی کو چاہئے کہ وہ کشمیر کی صورتحال پر ایڈووکیسی کرے، ارکان کانگریس سے رابطے کرے اور ان پر زور دے کہ وہ سینٹ میں بھی کشمیر کے مسئلہ پر سماعت کریں کہ خود معلوم کریں کہ کشمیر میں کیا ہو رہا ہے، انڈیا میں شہریت کے قانون اور شہریت رجسٹری کے مسئلہ پر کیا ہو رہا ہے؟ اور ان اقدامات کے انڈیا میں مسلمانوں پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ایک اور سوال پر کہ امریکہ میں پاکستانی سمیت دیگر امیگرنٹ کمیونٹیز کی بڑھتی ہوئی تعداد کے امریکہ کے صدارتی الیکشن 2020 کےلئے کیا معنی ہونگے اور ڈیموکریٹک پارٹی کس حد تک امیگرنٹ کمیونٹیز کو سیاسی عمل میں ساتھ لے کر چل رہی ہےں؟ کے جواب میں ڈیموکریٹ سینیٹر باب منینڈس نے کہا کہ ڈیموکریٹک پارٹی ہمیشہ امیگرنٹ کمیونٹیز کی پارٹی رہی ہے۔ اس جماعت نے امیگریشن قوانین، اصلاحات اور امیگرنٹس کی حقوق کے سلسلے میں ہمیشہ کلیدی کردار اد اکیا ہے۔ میرا تعلق ایک ایسی فیملی سے ہے جو کہ جس نے امریکہ میں آکر پناہ لی لہٰذا امیگرنٹ کمیونٹیز کے معاملات کو میں بخوبی سمجھتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن میں ہمیں اپنا ووٹ ڈالتے وقت سوچنا چاہئے کہ ہم کس کو ووٹ دے رہے ہیں اور کون سا امیدوار ہے جو کمیونٹیز کے معاملات کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ سینیٹر باب منینڈس نے مزید کہا کہ میں نے جب انڈیا میں کشمیر کا مسئلہ اٹھایا تو مجھے بھارتی وزیر خارجہ نے کہا کہ سینیٹر آپ کیا بات کر رہے ہیں، آپ اپنے ملک میں دیکھیں کیا کر رہے ہیں، آپ لوگوں کو بارڈرز پر روک رہے ہیں ، آپ نے بعض مسلم ممالک کے باشندوں پر سفری پابندیاں عائد کیں۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ ہم اپنے گھر میں جو کریں گے، اس پر دنیا بھر میں بات ہو گی۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم الیکشن کے دوران ایسے امیدوار کا انتخاب کریں کہ جو ہمارے ایشوز کو سمجھتا ہو اور ان کے حل کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کے لئے پرعزم ہو۔