ٹرمپ حکومت کی جانب سے غیر قانونی اور قانونی تارکین کی پکڑ دھکڑ، گرفتاریوں کے خوف سے غیرملکی ملازمین کی بڑی تعداد روپوش ہوگئی ہے ، ایسے ملازمین جن کے پاس دستاویزات مکمل نہیں تھے کم اجرت پر بھی کام کے لیے تیار ہوتے تھے جس کی وجہ سے گروسری سٹورز، مارٹس اور دیگر کام کی جگہ پر ان کی خدمات بلا جھجک موجود ہوتی تھیں لیکن اب یہ تمام شعبے ملازمین سے خالی ہوگئے ہیںاور ملازمین کا نیا بحران دستک دینے والا ہے ۔امریکہ میں آباد سفید فام اور سیاہ فام آبادی کسی بھی صورت ملازمت کرنے ، سروس سٹیشن ، گراسری سٹورز اور پبلک سروس میں ملازمت کرنے کو ترجیح نہیں دتے ہیں جس کی وجہ سے ان شعبوں کے افراد کو ملازمین کے لیے دیگر غیرقانونی افراد کا سہارا لینا پڑتا تھا۔
کنسٹرکشن ، ریسٹورنٹ، گراسری سٹور پر ملازمین نہیں مل رہے ہیں۔کچھ روپوش ہوگئے ہیں ، جورہ گئے ہیں انہیں میکسیکو کی طرف ڈی پورٹ کیا جا رہا ہے، امیگریشن نے غیرقانونی انڈین شہریوں کے تین جہاز بھارت بھیجے ہیں جبکہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد بھی امریکہ سے بے دخل ہوئی ہے۔آنے والے چند ماہ میں دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکہ میں معاشی سست روی کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ یہ سست روی ایسے وقت میں آرہی ہے ، کسی بھی ملک میں مرکزی بینک شرح سود اس وقت بڑھا دیتا ہے جب وہاں مہنگائی بڑھ جائے ۔یعنی دوسرے الفاظ میں مہنگائی کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے شرح سود بڑھائی جاتی ہے تاکہ لوگ کم خرچ کریں اور یوں طلب اور رسد کا توازن کسی حد تک برقرار رہے۔
ٹرمپ دور حکومت کی سخت پالیسیوں نے امیگریشن میں مزید پیچدگیاں پیدا کی ہیں ، اب امیگریشن ایجنٹس غیرقانونی کے ساتھ قانونی تارکین کو بھی حراست میں لے رہے ہیں جس سے طلبا، ملازمین کے ساتھ عام شہریوں میں ڈیپورٹیشن کا خوف پروان چڑھ رہا ہے ، حال ہی میں امیگریشن ایجنٹس نے کولمبیا یونیورسٹی کے فلسطینی نژاد طالب علم کو حراست میں لے لیا جوکہ گرین کارڈ ہولڈر تھا اور اس کے پاس تمام دستاویزات مکمل تھے ، ایسے ہی واقعات شہریوں میں خوف پیدا کر رہے ہیں جس سے قانونی اور غیرقانونی تارکین کی اکثریت روپوش ہے ۔کاروباری اداروں کے درمیان “اقتصادی نقطہ نظر کے بارے میں بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے صارفین کے اخراجات میں ممکنہ سست روی کا سامنا ہے۔ فیڈ شرح سود میں کمی کے لیے کوئی جلدی نہیں کرے گا جبکہ وہ اس بارے میں مزید وضاحت کا انتظار کرے گا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیاں کس طرح معیشت پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ٹرمپ حکومت تجارت، امیگریشن ، مالیاتی پالیسی اور ضابطوں کے حوالے سے انقلابی تبدیلیوں پر غور کر رہی ہے ، تجارتی بنیادوں پر جو بڑے فیصلے لیے گئے ہیں ان میں کینیڈا ، چین اور میکسیکو سے اشیا کی درآمد پر بھاری ٹیرف عائد کر دیا گیا ہے جس کے جواب میں دیگر ممالک نے بھی امریکہ کے لیے مصنوعات پر ٹیرف بڑھا دیا ہے ،اس طرح ان ممالک کے درمیان تجارتی جنگ کا آغاز ہو گیا ہے ، اگر ایک ملک دوسرے ملک کے خلاف درآمدات پر ٹیرف عائد کرتا ہے تو جواب میں دوسرے ملک کی جانب سے بھی دوگنا ٹیرف بڑھایا جا رہا ہے ۔ٹیرف سے امریکا کو تقریباً 100ارب ڈالر کی آمدنی ہوگی۔ایشیائی و یورپی اسٹاک مارکیٹیں کریش کرگئیں،تینوں ممالک کی جانب سے جوابی اقدامات کے بعد امریکا میں بھی مہنگائی کے طوفان کا خدشہ ہے ، امریکی ڈالر کی قدر میں بھی کمی ہوگی،عالمی منڈی میں سونے اور چاندی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
ٹرمپ نے اپنے پڑوسی ممالک کینیڈا اور میکسیکو سے درآمدات پر 25فیصد ٹیکس نافذ کردیا، چینی مصنوعات پر اضافی 10فیصد ٹیرف عائد کرکے اسے 20فیصد کردیا گیاہے ، صدر نے دنیا کے دیگر ممالک سے درآمد ہونے والے المونیم اور اسٹیل پر 25فیصد ٹیرف اپریل میں عائد کرنے کا عندیہ بھی دیاہے۔ کینیڈا نے بھی امریکی مصنوعات پر جوابی 25فیصد ٹیرف عائد کردیا ہے ، چین نے امریکی مصنوعات پر اضافی 15فیصد ٹیکس عائد کردیا ہے جبکہ امریکا کیساتھ تجارت کو بھی محدود کردیا ہے ، کینیڈین صوبے اونٹاریو نے ایلون مسک کی کمپنی سے 100ملین ڈالر (تقریباً 28ارب روپے) کا معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے،اونٹاریو کے وزیراعظم ڈگ فورڈ نے امریکا کی تین ریاستوں مشی گن، نیویارک اور منی سوٹا کو برآمد ہونے والی بجلی پر 25فیصد ٹیکس عائد کرنے کا اعلان بھی کیا،صدر ٹرمپ کی جانب سے شروع کی گئی تجارتی جنگ سے نہ صرف شمالی امریکا کی مضبوط معیشت میں ایک ہیجان پیدا ہوگیا بلکہ عالمی منڈیوں میں بھی زلزلہ آگیا ہے۔ ٹرمپ کی جانب سے عائد کیا گیا ٹیرف1940 کی دہائی کے بعد سے درآمدات پر سب سے زیادہ ٹیکس ہے۔ ٹرمپ نے فروری میں بڑے تجارتی شراکت داروں کینیڈا اور میکسیکو سے درآمدات پر 25 فیصد ٹیرف لگانے کا اعلان کیا تھا اور ان پر غیر قانونی امیگریشن اور منشیات کی اسمگلنگ کو روکنے میں ناکام ہونے کا الزام لگایا تھا۔