سیاستدانوں میں گھمسان کی جنگ)پاکستان میں حکومتیں گرانے کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے

0
127

لاہور، اسلام آباد (پاکستان نیوز)پاکستان میں سیاسی درجہ حرارت عروج پر پہنچ چکا ہے ، سیاسی دھڑوں میں ایسی گھمسان کی جنگ آج سے پہلے کبھی پاکستانی تاریخ میں نہیں ہوئی ہے، جس طرح حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو گرانے کیلئے نئی چالیں چل رہے ہیں جس سے ملک سیاسی اکھاڑا بن کر رہ گیا ہے ،سیاستدانوں میں گھمسان کی جنگ جاری ہے جبکہ ایک دوسرے کی حکومتیں گرانے کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں ، پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا کہ عدم اعتماد کے نتیجے میں جانے والی وفاقی حکومت بدلے میں اتحادی جماعتوں کی صوبائی حکومت کو نکال باہر کرے، اور ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا کہ ملک کے سینئر سیاستدان اپنی حکومتوں کو بچانے اور حریفوں کو گھر بھیجنے کے لیے اس قدر سرگرم رہیں، خاص طور پر آصف زرداری ، مولانا فضل الرحمن نے اس گھمسان کی جنگ میں کلیدی کردار ادا کیا ہے ، سپریم کورٹ نے پنجاب اسمبلی کی رولنگ کو غیر آئینی اور کالعدم قرار دیتے ہوئے حمزہ شہباز کی جگہ پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ مقرر کر کے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا ہے ، سپریم کورٹ نے اس سے قبل درخواست میں سیاسی جماعت کے سربراہ کو سپریم قرار دیا کہ اس کی رائے کی بغیر کوئی ووٹ کاسٹ نہیں ہوسکتا جبکہ دوسری درخواست میں اپنے پہلے فیصلے کی نفی کرتے ہوئے چودھری شجاعت کے منع کرنے کے باوجود ق لیگ کے دس ووٹوں کو قانونی قرار دے کر پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ کے عہدے پر براجمان کر دیا ہے، پاکستان تحریک انصاف کی قیادت اور کارکنوںنے پنجاب میں فتح کے بعد وفاق کیخلاف بھی طبل جنگ بجا دیا ہے ، اور شہباز شریف کو اپنا بستر گول کرنے کی واضح ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔دریں اثنا وزیراعظم شہباز شریف نے عدالتی فیصلے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر پارلیمنٹ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 2014 میں پارلیمنٹ پر حملہ کیا گیا، سپریم کورٹ پر گندے کپڑے لٹکائے گئے لیکن کسی نے نوٹس نہیں لیا۔انہوں نے کہا کہ عمران خان نے مارچ میں دھوکے سے اسمبلی توڑنے کی کوشش کی، مارچ میں ہی جس طرح صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی، وزیر اعظم عمران خان اور ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری نے آئین شکنی کی لیکن انہیں تو کسی نے نہیں بلایا۔وزیراعظم نے مزید کہا کہ پنجاب کے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کو سپریم کورٹ میں بلالیا گیا، ملک میں انصاف کا دہرا معیار نہیں ہونا چاہیے۔اْن کا کہنا تھاکہ حالات مشکل ضرور ہیں لیکن ہم پاکستان کو عظیم بنائیں گے، عمران خان کی فسطائیت کا مقابلہ کریں گے اور کسی کے آگے جھکیں گے نہیں۔شہباز شریف نے یہ بھی کہا کہ جب تک مجھ پر میرے قائد اور اتحادیوں کا اعتماد ہے، کام کرتا رہوں گا، اس ملک کا ایک ایک ڈالر بچائیں گے، ہم شاہ خرچیوں کے متحمل نہیں ہو سکتے، انہوں نے کہا کہ عمران خان انا پرست ہے، این سی اے نے پونے دو سال میرے بارے میں تحقیقات کیں لیکن کوئی کرپشن ثابت نہ ہو سکی۔وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے نہیں اسرائیل اور بھارت سے فنڈ عمران خان نے منگوائے،پوچھتا ہوں چیف الیکشن کمشنر 8 سال بعد بھی فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ کیوں نہیں کررہے ہیں؟اْن کا کہنا تھاکہ 2018 کے الیکشن پاکستان کی تاریخ کے جھرلو الیکشن تھے، تاریخ کی بدترین دھاندلی ہوئی، جس کے بعد ملک پر نااہل حکومت مسلط کی گئی۔شہباز شریف نے مزید کہا کہ 2018 کی اپوزیشن اگر سیاست کو مقدم رکھتی تو ریاست کا اللّٰہ ہی حافظ تھا، ہم نے فیصلہ کیا کہ ہمیں ریاست کو بچانا ہے سیاست تو ہوتی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ میں جانتا تھا کہ وزیر اعظم کی کرسی کانٹوں کی سیج ہے، 1992 میں ایک صدر نے مجھے کہا کہ وزیر اعظم بن جائو، یہی آفر جنرل پرویز مشرف نے بھی کی۔وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ اگر مجھے وزیر اعظم بننا ہوتا تو میرے پاس بہت سے موقع تھے، لیکن مجھے کوئی لالچ نہیں تھی،2017 میں مجھے میاں نواز نے وزیراعظم کے لیے نامزد کیا تو میں نے پنجاب میں رہنے کو تریج دی تاکہ پنجاب میں منصوبے مکمل کروں۔اْن کا کہنا تھاکہ مجھے رات کو بھی نیند نہیں آتی، خود سے پوچھتا ہوں کیوں ہماری قوم پیچھے رہ گئی، ہم کیوں اپنے راستے کا تعین نہ کرسکے؟وزیراعظم نے کہا کہ یہ آئین پاکستان کی وحدت کی علامت ہے، جو ہماری رہنمائی کرتا ہے، یہ معزز ایوان 1973ء کے آئین کی ماں ہے، یہاں اس کی تخلیق ہوئی۔انہوں نے کہا کہ اس آئین میں تمام اداروں کے اختیارات متعین کر دیے گئے ہیں، مقننہ، عدلیہ اور دیگر اداروں کے اختیارات آئین میں واضح ہیں۔شہباز شریف نے کہا کہ ٹرانسپیریسی انٹرنیشنل نے کہا کہ سب سے زیادہ کرپشن پی ٹی آئی کے دور میں ہوئی، پچھلی حکومت نے ترکیہ، سعودی عرب اور چین کے ساتھ تعلقات خراب کیے۔وزیر اعظم نے کہا کہ انہوں نے سب سے ہمارے تعلقات خراب کیے اور ہمیں کہتے ہیں کہ ہم ڈکٹیشن لیتے ہیں، انہوں نے روس سے سستا تیل لینے کی بات کی، پوچھنے پر ماسکو سے تردید سامنے آئی۔شہباز شریف نے کہا کہ سیکریٹری خارجہ نے بتایا کہ روس سے سستی اور اچھی گندم مل رہی ہے، تو ہم نے کہا کہ ہم لیں گے، سب کو بتا دیا کہ ہم گندم لیں گے اور ہمیں کسی کی پرواہ نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں بارشوں سے بہت نقصان ہوا ہے، پورے پاکستان میں بارش سے جہاں بھی نقصانات ہوئے ہیں اس کا مداوا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔شہباز شریف نے کہا کہ بارشوں، سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں کررہے ہیں، صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر کسانوں کے نقصان کا ازالہ بھی کریں گے۔انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت امدادی کارروائیوں میں بھرپور حصہ لے رہی ہے، صوبائی حکومتیں دن رات کام کر رہی ہیں، امدادی پیکیج میں مزید اضافہ کریں گے۔وزیراعظم نے کہا کہ کل اس حوالیسے ایک اور اہم اجلاس طلب کیا ہے، کسانوں کا جو نقصان ہوا ہے اس کا ازالہ کریں گے، بارش سے متاثرہ افراد کی امداد کا سلسلہ جاری ہے، وفاق اور این ڈی ایم اے صوبائی حکومتوں کی مدد کر رہے ہیں۔دوسری جانب پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے کہا کہ ہمارے ساڑھے 3 سال میں ڈالر 50 روپے مہنگا ہوا، ان کے صرف ساڑھے 3 ماہ میں ڈالر 53 روپے مہنگا ہو گیا۔ تفصیلات کے مطابق پنجاب میں حکومت کے قیام پر ملک بھر میں تحریک انصاف کی جانب سے بنائے جانے والے یوم تشکر کے موقع پر سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے قوم سے خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا گیا کہ میرے پاکستانیوں آج سب کو مبارکباد دینا چاہتا ہوں، تین ماہ پہلے ہماری حکومت ہٹا کر کرپٹ لوگوں کو مسلط کیا گیا، ان لوگوں کو مسلط کیا گیا جو تیس سال سے کرپشن کر رہے تھے، قوم کی توہین کی گئی، عوام کو بھیڑ بکریاں سمجھا گیا، کہ کسی کو بھی مسلط کردو کہ قوم خاموش ہو کر برداشت کرے گی، سب کوخراج تحسین پیش کرتا ہوں،بیرونی سازش کوآپ سب نے ایک قوم بن کرشکست دی۔عمران خان کی جانب سے موجودہ حکومت کی معاشی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ عمران خان نے کہا کہ ہمارے ساڑھے 3 سال میں ڈالر 50 روپے مہنگا ہوا، جبکہ ان کے صرف ساڑھے 3 ماہ میں ڈالر 53 روپے مہنگا ہو گیا۔ ہماری حکومت میں سارے معاشی اشاریے درست راستے پر چل رہے تھے، موجودہ حکومت نے اقتصادی سروے رپورٹ جاری کی، رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معیشت 6 فیصد گروتھ کر رہی تھی، 17 سال بعد پاکستان کی معیشت میں اس قسم کی ترقی ہو رہی تھی۔ہمارے دور میں زراعت 4.4 فیصد کیساتھ ترقی کر رہی تھی، ٹیکنالوجی سیکٹر کی مدد کرنے پر دو سال میں آئی ٹی ایکسپورٹ میں 75 فیصد اضافہ ہوا، ہماری حکومت کی پوری توجہ ٹیکنالوجی اور آئی ٹی سیکٹر پر تھی، خوشی ہے ہم پاکستان کو پہلی بار فلاحی ریاست کی طرف لے جا رہے تھے، پاکستان میں صحت کارڈ متعارف کروایا ، غریب لوگوں کو ہیلتھ انشورنس دی، بڑے ممالک ایسے ہیں جہاں صحت کارڈ یا ہیلتھ انشورنس کی سہولت نہیں، صحت کارڈ شروع کرنے پر دنیا نے ہماری پالیسی کی تعریف کی، صحت کارڈ سے پہلی بار غریب لوگ پرائیویٹ ہسپتال سے علاج کروا رہے تھے۔عمران خان کی جانب سے قوم سے خصوصی خطاب کرتے ہوئے صوبے میں صحت کارڈ اور احساس پروگرام بحال کرنے جبکہ راشن پروگرام متعارف کروانے کا اعلان کیا گیا، راشن پروگرام کے تحت شہریوں کو تیل، گھی، چینی و دیگر اشیائ کم قیمت پر فراہم کی جائیں گی۔ عمران خان نے واضح کیا کہ ملک کو بحرانوں سے نکالنے کا ایک ہی راستہ ہے وہ شفاف انتخابات ہے، شفاف انتخابات نہیں ہوں گے تو بحران اور انتشار مزید بڑھے گا، ایسا الیکشن کمیشن تشکیل دینا چاہیے جس پر سب کو اعتماد ہو۔انہوں نے سپریم کورٹ پر کی جانے والی تنقید کے حوالے سے حکمران اتحاد کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کل ایک سے بڑا ایک ڈاکو بیٹھ کر عدالتوں کو دھمکیاں دے رہا تھا، پاناما کیس میں بھی جج ایک ہی سوال پوچھتے رہے پیسہ کہاں سے آیا، ساری دنیا کی باتیں کرتے رہے لیکن جج کو جواب نہیں دیا کہ پیسہ کہاں سے ا?یا، یہ لوگ خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں، بڑے بڑے مافیا بیٹھے ہوئے ہیں۔واضح رہے کہ پاکستانی سیاست میں سیاسی تحریکوں کا سلسلہ اگرچہ ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو اور ضیا الحق کے دور میں اپنے عروج پر رہا اور کئی طرح کی تحریکیں چلیں تاہم لانگ مارچ کا سلسلہ 90 کی دہائی میں شروع ہوا۔ نومبر 1990 میں نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں بے نظیر بھٹو کی قیادت میں حزب اختلاف اتحاد پی ڈی اے نے کئی الزامات لگاتے ہوئے فوری طور پر حکومت کی برطرفی اور نئے انتخابات کا مطالبہ کیا اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے لانگ مارچ کا اعلان کیا۔بعدازاں نیشنل ڈیموکریٹک الائنس بھی اس لانگ مارچ کی غیر مشروط حمایت کرتے ہوئے اس کا حصہ بن گیا۔ 18 نومبر 1992 کو ملک بھر سے آئے ہوئے تمام مظاہرین کو راولپنڈی لیاقت باغ سے پارلیمنٹ پہنچنا تھا۔بے نظیر بھٹو تمام رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے لیاقت باغ پہنچنے میں کامیاب ہو گئیں جہاں بے نظیر بھٹو سمیت کئی مرکزی رہنماوں گرفتار کر کے اسلام آباد منتقل کر دیا گیا۔جولائی 1993 کے دوسرے ہفتے میں میں جب صدر غلام اسحق خان اور وزیراعظم نواز شریف کے درمیان شدید اختلافات کے باعث امور مملکت متاثر تھے۔اس موقع پر محترمہ بے نظیر بھٹو نے دوبارہ لانگ مارچ کا اعلان کیا، تاہم اس کی ضرورت پیش نہ آ سکی کیونکہ اس کے بعد دونوں اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔1996 میں بے نظیر حکومت کے خلاف جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے پارلیمنٹ ہاوس کے باہر دھرنا دینے کا اعلان کیا۔حکومت نے تمام راستے بند کرتے ہوئے راولپنڈی میں جماعت اسلامی کے کارکنان کی گرفتاریاں شروع کر دیں اور آنسو گیس اور لاٹھی چارج کیا۔ قاضی حسین احمد بھی لاٹھی چارج کی زد میں آئے تاہم بعد ازاں وہ کارکنان کے ہمراہ پارلیمنٹ ہاوس پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔اس دھرنے کے نتیجے میں فوری طور پر تو بے نظیر حکومت کو کچھ نہ ہوا تاہم کہا جاتا ہے کہ بے نظیر حکومت کے گرنے میں اس دھرنے کا کلیدی کردار تھا۔ 2007 میں جنرل پرویز مشرف نے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو برطرف کیا تو ملک بھر میں احتجاجی تحریک شروع ہو گئی جس کی قیادت وکلا کر رہے تھے۔2007 کی ایمرجنسی کے نتیجے میں چیف جسٹس افتخار چوہدری سمیت کئی سینیئر ججوں کو پی سی او حلف نہ اٹھانے پر سبکدوش کر دیا گیا تھا جن کی بحالی کے لیے مسلسل تحریک جاری تھی۔بعد میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت برسراقتدار آئی تو اس وقت وزیراعظم یوسف رضا گیلانی تھے لیکن ججوں کو بحال نہیں کیا گیا تھا۔ان حالات میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے لیے سپریم کورٹ بار اور دیگر وکلا انجمنوں کی جانب سے اسلام آباد پارلیمنٹ ہاؤس تک احتجاجی لانگ مارچ کیا گیا۔اس لانگ مارچ کو ن لیگ، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی مکمل حمایت حاصل تھی۔10 جون سے مارچ کے شرکا نے سفر کا آغاز کیا۔ امکان تھا کہ لانگ مارچ کے شرکا اسلام آباد پہنچ کر دھرنا دیں گے۔پی پی حکومت نے مظاہرین کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر اجتماع کی اجازت دے دی تھی۔ یہ احتجاج مکمل پرامن رہا اور 14جون کو جب تمام تقاریر مکمل ہو گئیں تو اعتزاز احسن نے اچانک دھرنا نہ دینے کا اعلان کرتے ہوئے لانگ مارچ ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس کے تقریباً نو ماہ بعد جب پی سی او چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی تاریخ ریٹائرمنٹ قریب تھی۔ایسے میں سابق صدر پرویز مشرف کے جانب سے قریباً ڈیڑھ برس قبل برطرف کیے گئے چیف جسٹس افتخار چوہدری سمیت دیگر ججوں کی بحالی کے لیے 12 مارچ 2009 کو احتجاجی لانگ مارچ کا ا?غاز ہوا، جس میں اسلام آباد پہنچ کر پرامن دھرنے کا پروگرام شامل تھا۔وکلا کے علاوہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں ن لیگ، تحریک انصاف، جماعت اسلامی کے مرکزی رہنماؤں سمیت کارکنوں کی بڑی تعداد نے ملک کے چاروں جانب سے اسلام آباد کی جانب سفر کا آغاز کیا۔سرکاری طور پر 144 کا نفاذ تھا اور حفاظتی اقدام کے طور پر جڑواں شہر راولپنڈی اسلام آباد میں کنٹینر لگا دیے گئے تھے۔یہ لانگ مارچ جب گوجرانوالہ پہنچ تو اسے روک دیا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حکومت نے چیف جسٹس کی بحالی کا فیصلہ کر لیا تھا اور وزیراعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی نے ٹیلی ویژن پر براہ راست قوم سے خطاب میں اس کا اعلان کیا۔جس کے ساتھ ہی وکلا اور سیاسی جماعتوں پر مشتمل یہ لانگ مارچ کامیابی سے اپنے اختتام پر پہنچا۔عبدالحمید ڈوگر کی ریٹائرمنٹ کے بعد 22 مارچ 2009 کو افتخار چوہدری پھر چیف جسٹس آف پاکستان بن گئے۔ یہ کسی بھی لانگ مارچ کے نتیجے میں حاصل کی جانے والی سب سے بڑی کامیابی سمجھی جاتی ہے۔ پی پی پی اپنا دور حکومت مکمل کرنے کے قریب تھی کہ 13 جنوری 2013 کو منہاج القران کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنے کارکنوں اور ہمدردوں کے ہمراہ اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے لاہور سے لانگ مارچ کا آغاز کیا، ان کے پروگرام میں اسلام آباد پہنچنے کے بعد دھرنا شامل تھا،ان کا کارواں جی ٹی روڈ سے ہوتا ہوا اسلام آباد پہنچا تھا۔ انہیں سرکاری طور پر صدر اور وزیراعظم درجے کی سکیورٹی فراہم کی گئی۔14 جنوری کو لانگ مارچ کے شرکا اسلام آباد پہنچے اور تین دن سخت سردی میں دھرنے دینے کے بعد 17 جنوری کو حکومت کے ساتھ مذاکرات کے بعد ایک معاہدے پر پہنچنے کے بعد یہ مارچ اختتام پذیر ہوا تھا۔اعلامیہ میں حکومتی اتحاد کی جانب سے مذاکراتی ٹیم کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین، مخدوم امین فہیم، سید خورشید شاہ، قمر زمان کائرہ، فاروق ایچ نائیک، مشاہد حسین سید، ڈاکٹر فاروق ستار، بابر غوری، افراسیاب خٹک، اور سینیٹر عباس آفریدی جبکہ منہاج القران کے ڈاکٹر طاہرالقادی نے دستخط کیے۔اس اعلامیے پر وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور صدر پاکستان آصف علی زرداری نے بھی دستخط کیے تھے،بعدازاں یہ معاہدہ بھی وقتی طور پر احتجاج کے خاتمے کا ایک بہانہ ہی ثابت ہوا تھا۔2014 میں وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کا ڈیڑھ سال بھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ تحریک منہاج القرآن نے ماڈل ٹاؤن واقعے اور پاکستان تحریک انصاف نے مبینہ انتخابی دھاندلی کے خلاف لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ اور دھرنے کا فیصلہ کیا۔طاہرالقادری کے زیرقیادت تحریک منہاج القرآن کے کارکنوں کا لانگ مارچ 16 اگست کو اسلام آباد پہنچا۔طاہرالقادری 19 اگست کو اپنے کارکنوں کے ہمراہ اسلام آباد کے ریڈزون میں داخل ہو کر پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے دھرنے پر بیٹھ گئے تھے۔انہوں نے تقریباً 68 دن دھرنا دینے کے بعد 21 اکتوبر کو اس کے خاتمے اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب احتجاج اگلے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔قومی اسمبلی کی تیسری بڑی اور خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت رکھنے والی تحریک انصاف نے اپنے چیئرمین عمران خان کی قیادت میں آزادی مارچ کے نام سے اسلام آباد لانگ مارچ اور وہاں پہنچ کر دھرنے کا فیصلہ کیا۔19 اگست سے ریڈ زون میں جاری یہ احتجاجی دھرنا قریباً 123 دن جاری رہنے کے بعد 16 دسمبر 2014 کو دہشت گردوں کے آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد فوری طور ختم کر دیا گیا تھا۔اس دھرنے کے اختتام پر حکومت اور تحریک انصاف کے دوران انتخابی دھاندلی کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن کے قیام پر اتفاق ہوا تھا۔کمیشن نے بعدازاں قرار دیا کہ 2013 کے انتخابات میں منظم دھاندلی کے ثبوت نہیں ملے۔یوں ملکی تاریخ کے طویل ترین احتجاج اور دھرنے کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف اپنا اصل مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی۔ پہلے مسلم لیگ ن اور بعدازاں پاکستان تحریک انصاف کے دور میں ملک کی مذہبی جماعت تحریک لبیک لاہور سے لانگ مارچ لے کر اسلام آباد پہنچتی رہی اور فیض آباد کے مقام پر ڈیرے جمائے رکھے لیکن حالیہ دور میں سیاسی جوڑ توڑ کا جو سلسلہ دیکھنے میں آیا ہے اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے ، اراکین کو سندھ ہائوس میں بند کرنا، ہوٹلوں میں اکٹھے قیام کرانے سمیت دیگر کئی روایتیں ایسی ہیں جوکہ پہلی مرتبہ ہی دیکھنے میں آ رہی ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here