واشنگٹن (پاکستان نیوز)امریکہ کے ایوان نمائندگان نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مواخدے کی منظوری دے دی ہے اور اس کے بعد ایوان بالا سینیٹ میں ان کا ٹرائل کیا جائے گا،صدر ٹرمپ پر گذشتہ ہفتے کیپیٹل ہل پر مظاہرے کے دوران مظاہرین کو ‘بغاوت پر اکسانے’ کا الزام لگایا گیا تھا،اس طرح امریکی صدر تاریخ میں وہ پہلے صدر بن گئے ہیں جنھیں دو مربتہ مواخذے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ایوان نمائندگان کی اکثریت نے اپنی جماعت کے اعتبار سے ووٹ ڈالا تاہم 10 رپبلکنز نے مواخدے کے حق میں ووٹ دیا جس کے بعد 232 اراکین نے مواخذے کے حق میں جبکہ 197 نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔ریپبلکن جماعت سے تعلق رکھنے والے صدر ٹرمپ کے خلاف اب سینیٹ میں ٹرائل کیا جائے گاجہاں ان کے خلاف جرم ثابت ہونے کی صورت میں انھیں آئندہ کبھی بھی صدر کے عہدے پر فائز ہونے سے روکا جا سکتا ہے تاہم اس بات کا امکان موجود نہیں ہے کہ صدر ٹرمپ کو اپنے دور کے اختتام سے پہلے ہی وائٹ ہاو¿س چھوڑنا پڑے کیونکہ سینیٹ کا اجلاس اس وقت تک بلائے جانے کا امکان نہیں ہے ،جو بائیڈن سے گذشتہ برس نومبر میں الیکشن ہارنے کے بعد صدر ٹرمپ کے پہلے دور کا اختتام 20 جنوری کو ہو رہا ہے ،بدھ کے روز ڈیموکریٹس کی اکثریت والے ایوان نمائندگان میں گھنٹوں کی بحث کے بعد ووٹنگ کی گئی۔ مواخذے کی صورت میں لگائے گئے الزامات سیاسی ہوتے ہیں مجرمانہ نہیں۔ صدر ٹرمپ پر کانگریس کی جانب سے چھ جنوری کو وائٹ ہاو¿س کے باہر منعقدہ ایک ریلی کے مظاہرین کو کیپیٹل ہل پر ہنگامہ آرائی پر اُکسانے کا الزام لگایا تھا۔انھوں نے اپنی تقریر کے دوران اپنے حامیوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ وہ پرامن انداز میں حب الوطنی کا جذبہ لیے آواز بلند کریں پھر انھوں نے اپنے حامیوں سے جھوٹ بولا کہ فراڈ زدہ الیکشن کے خلاف شدید مزاحمت کریں۔صدر ٹرمپ کی جانب سے استعمال کیے گئے ان الفاظ کے بعد ان کے حامیوں نے کیپیٹل ہل پر ہنگامہ آرائی کی جس سے اراکین پارلیمان کو جو بائیڈن کی کامیابی کی توثیق کرنے کے لیے کی جانے والے ووٹنگ کو منسوخ کرنا پڑا۔ اس وقت اس عمارت کو لاک ڈاو¿ن کر دیا گیا اور اس سب کے دوران پانچ افراد ہلاک بھی ہوئے۔مواخذے کے آرٹیکل میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ صدر ٹرمپ نے متعدد مرتبہ جھوٹے بیانات کا سہارا لیا اور کہا کہ صدارتی انتخاب کے نتائج فراڈ زدہ ہیں اور انھیں نہیں ماننا چاہئے۔انھوں نے پھر ان دعوو¿ں کو دہرایا اور جان بوجھ کر ایسے بیانات دیئے جن سے مجمعے کی حوصلہ افزائی ہوئی اور اس کے نتیجے میں ایک کیپٹل پر ایک غیرقانونی کارروائی عملی میں آئی۔صدر ٹرمپ نے امریکہ اور حکومت کے مرکزی ادارے کی سکیورٹی کو خطرے میں ڈال دیا، جمہوری نظام کی ساکھ کو نقصان پہنچایا اور اقتدار کی پرامن منتقلی میں مداخلت کی،گذشتہ ہفتے 139 رپبلکنز نے 2020 کے انتخابی نتائج ماننے سے انکار کیا تھا ،اس کے بعد سینیٹ میں ایک ٹرائل کیا جائے گا جس میں یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ آیا صدر ٹرمپ قصور وار ہیں بھی یا نہیں۔یاد رہے کہ سینیٹ میں صدر ٹرمپ کے خلاف جرم ثابت کرنے کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ 18 رپبلکنز کو ڈیموکریٹس کے حق میں ووٹ کرنا ہو گا۔ امریکہ کے ایوانِ بالا میں 100 اراکین موجود ہیں۔ نیویارک ٹائمز نے رپورٹ کیا کہ کم از کم 20 رپبلکن سینیٹرز صدر ٹرمپ کو قصوروار ٹھہرانے کے حق میں ہیں۔اگر صدر ٹرمپ کو سینیٹ قصور وار ٹھہرا دیتی ہے تو اراکینِ پارلیمان ایک اور ووٹ منعقد کر سکتے ہیں جس کے ذریعے صدر ٹرمپ کو آئندہ صدر منتخب ہونے سے روکا جا سکے گا۔ خیال رہے کہ صدر ٹرمپ یہ اشارہ دے چکے ہیں کہ وہ 2024 میں دوبارہ صدارتی دوڑ میں شریک ہو سکتے ہیں۔رپبلکنز کے سینیٹ لیڈر مچ میکونیل نے ایک بیان میں کہا کہ ‘قواعد وضوابط اور سینیٹ میں اس سے قبل ہونے والی مواخذے کے ٹرائلز سے یہ پتا چلتا ہے کہ ایک منصفانہ ٹرائل کو ٹرمپ کے دورِ اقتدار کے خاتمے سے پہلے مکمل کیا جا سکے۔خیال رہے کہ صدر ٹرمپ کو سنہ 2019 میں بھی مواخذے کا سامنا کرنا پڑا تھا تاہم سینیٹ نے انھیں بری الذمہ قرار دیا تھا۔ اب تک کسی بھی امریکی صدر کو مواخذے کے ذریعے صدارت سے دستبردار نہیں کیا گیا۔خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے نومنتخب صدر جو بائیڈن کی فتح کی توثیق کے لیے سینیٹ میں ہونے والے ووٹ کے دوران صدر ٹرمپ کے حامیوں نے کیپیٹل ہل پر ہنگامہ آرائی کی تھی جس کے نتیجے میں ایک پولیس افسر سمیت پانچ افراد ہلاک ہوئے تھے۔