فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
69

محترم قارئین! اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی آخر الزماںۖ کو علوم غیب وشہادت عطا فرما کر تمام مخلوقاتت کا مقتداو امام بنا دیا ہے توح وقلم، عرش وکرسی اور زمان ومکاں سے اسرار ورموز تو حضور سید عالمۖ کے بحرعلم کا ایک قطرہ ہیں۔ کیوں نہ ہو؟ خالق مطلق نے اپنی ہر نعمت، اپنی ہر رحمت ان پر ختم فرما دی اور ان کے درجات ابدالا باد تک بڑھانے کا وعدہ فرمایا، قرآن مقدس میں ہر چیز کا علم موجود ہے۔ اور قرآن مقدس ان کی تمام صفتوں میں سے ایک صفت ہے۔ اندازہ کریں ایک وصف کی بے کرانی کا یہ عالم ہے۔ باقی اوصاف کا عالم کیا ہوگا؟ قرآن مقدس میں ہر چیز کا علم موجود ہے اور حضورۖ قرآن مقدس کی تعلیم دیتے ہیں۔ گویا آپ لوگوں کو ہر چیز کا علم ان کی ذہنی وفکری استعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے عطا فرماتے ہیں۔ اس لحاظ سے آپ مرشد کائنات، ہادیٰ دو عالم رہبر کونین ہیں۔ تمام جہانوں کو قہر الٰہی سے ڈرانے والے اور رحمت الٰہی کی بشارتوں کا مژدہ جاں فزاسنانے والے ہیں۔ یہ سب کچھ تب ممکن ہوگا جب تمام جہانوں کے ذرہ ذرہ کا علم اور ادراک حاصل ہو۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہ کچھ سکھا دیا جو آپ نہیں جانتے تھے اور آپ پر اس مالک حقیقی کا فضل عظیم اور احسان عمیم ہے اور اب ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں۔ بقول ڈاکٹر محمد اقبال علیہ الرحمة:
لوح بھی تو قلم بھی تو، تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
حضرت انس بن مالک رضی الہ عنہ روایت کرتے ہوئے کہ حضورۖ نے نماز ظہر ادا فرمائی اور منبر پر جلوہ افروز ہوگئے پس آپ ۖ نے قیامت کا ذکر شروع فرمایا: فرمانے لگے اس میں بڑی سنگین چیزیں ہوں گی پھر فرمایا” جو شخص کچھ پوچھنا چاہتا ہو پوچھ لے میں یہاں کھڑے کھڑے اسے بتا دوں گا” لوگوں نے کثرت سے گریہ وزاری شروع کردی۔ آپ نے بار بار یہی فرمایا: مجھ سے پوچھو، عبداللہ بن حذیفہ سہمی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کی:”میرا باپ کون ہے”؟ فرمایا: ”حذیفہ”: آپ نے پھر فرمایا، ”پوچھو ” تب عمر رضی اللہ عنہ دوزانو بیٹھے اور عرض کی: ”ہم اللہ کے رب، اسلام کے دین اور محمد(ۖ) کے نبی ہونے پر راضی ہوگئے” اس وقت آپ ۖ خاموش ہوگئے۔ ازاں بعد فرمایا: جنت اور دوزخ میرے سامنے ابھی دیوار کے گوشے میں لائی گئی ہیں۔ ایسی عمدہ اور مکروہ چیز کبھی نہیں دیکھی۔ یہ حدیث امام بخاری رضی اللہ عنہ نے بخاری شریف کے کتاب العلم، کتاب مواقیت الصلواة اور کتاب الفتن میں نقل فرمائی ہے۔ ”کتاب الاعتصام” میں حضرت ابو موسیٰ، شعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور ایک جگہ قسمیہ ارشاد فرمایا: ”خدا کی قسم تم جو کچھ پوچھنا چاہو پوچھ لو” ایک آدمی نے کھڑے ہو کر پوچھا: یارسول اللہ، میرا ٹھکانہ کہاں ہوگا؟ فرمایا: ”دوزخ میں” اسی مقام پر آیت کریمہ نازل ہوئی جس کا ترجمہ یہ ہے”اے ایمان والو! ایسی باتیں نہ پوچھو جو تم پر اہر کی جائیں تو تمہیں بری لگیں(سورة المائدہ آیت نمبر1.1)شرح قسطانی میں ہے کہ”بوض منافقین نے کہا کہ ہم حضور اقدس سے ایسی باتیں پوچھیں گے جن کا جواب دینے سے وہ عاجز آجائیںگے” معلوم ہوا کہ نبی کے لامتناہی علوم میں شک کرنا بھی منافقت کی علامت ہے۔ حضور ۖ نے منبر پہ رونق افروز ہو کر قیامت کا ذکر فرمایا، معلوم ہوا کہ آپ قیامت کے متعلق سب کچھ جانتے ہیں۔
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک روز حضور ۖ نے ہمارے درمیان کھڑے ہو کر ابتدائے آفرینش سے ذکر فرمانا شروع کیا یہاں تک کہ جنتی اپنے مقام پر پہنچ گئے اور دوزخی اپنے پر پس اسے یاد رکھا جس نے یاد رکھا اور بھول گیا اسے جو بھول گیا۔(بخاری شریف کتاب بدالخق) حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک حضور ۖ نے ہمیں ایک ایسا خطبہ دیا کہ اس میں بیان کرنے سے قیامت تک کی کوئی چیز نہیں چھوڑی۔ جان گیا جو جان کیا اور بھول گیا جو بھول گیا(بخاری کتاب القدر) حضرب ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ ایک باغ میں حضور ۖ کے ہمراہ تھے حضورۖ کے دست اقدس میں ایک لکڑی تھی جیسے آپ پانی اور مٹی میں مارتے تھے اتنے میں ایک شخص آیا اور دروازہ کھولنے کے لئے کہا۔ آپ نے فرمایا: دروازہ کھول دو اور جنت کی بشارت دو اسے۔ دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔ پھر اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بشارت سنائی۔ آخر میں عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو آپ نے فرمایا: اور اسے جنت کی بشارت دو لیکن اس مصیبت کے ساتھ جو اسے پہنچے گی جب انہیں خبر دی گئی تو کہنے لگے۔ اللہ ہی امداد کرنے والا ہے۔ بس اللہ پاک حقائق کو سمجھ کر عمل کی توفیق عطا فرمائے(آمین) باقی اس موضوع پر قرآن واحادیث کی گواہیاں اظہر من الشمس ہیں۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here