سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے لیے پاکستان کی قومی اسمبلی سے ایک اہم بل پاس ہوا ہے، جو کہ اب سینٹ میں سیاسی جماعتوں کے رحم وکرم پر ہے، سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سے کیا فائدے ہوتے ہیں یہ ایک ایسی بحث ہے جس کے کئی پہلو ہے، مگر میں سمجھتا ہوں کہ اب اس بحث کو ضرور شروع ہونا چاہیے، ابتدائی طور پر سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دلوانے کے لیے اگر دیکھا جائے تو امریکہ میں موجود سمندر پار پاکستانی کافی اس معاملے میں پرجوش نظر آتے ہیں۔سبھی سمندر پار پاکستانیوں کا یقین اس میں کسی نہ کسی حد تک کردار شامل ہے مگر سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کا حق ملنا چاہیے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے جو جوش و ولولہ میں نے منڈی بہاؤالدین کے سپوت شاہد رضا رانجھا میں دیکھا ہے شاید ہی ایسے چند مزید افراد ہونگے جن کے دلوں میں ایسی لگن ہو۔شاہد رضا رانجھا کی زندگی آپ دیکھیں تو آپ کو بڑی مثالی نظر آئے گی، ایک عام انسان سے جدوجہد شروع کرنے سے لے کر ایک کامیاب بزنس مین بننے تک شاہد رضا رانجھا اپنے آپ میں ایک کتاب ہیں،سعودی عرب کے تپتے صحراؤں میں عرق ریزی کرتا ہوا یہ نوجوان امریکہ پہنچا تو عام لوگوں کی طرح محنت مزدوری شروع کی، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کامیابی کی منازل طے کیں اور نیویارک کے کامیاب بزنس مینوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔شاہد رضا رانجھا میں مستقبل کو دیکھنے کی وہ خداداد صلاحیت ہے جو بڑے کم لوگوں کو ملتی ہے، میرے قارئین بے شک سے تعریف سمجھیں یا جو مرضی رنگ دیں مگر شاہد رضا رانجھا کی ان خوبیوں کا ذکر کرنا اس لئے ضروری تھا کہ یہ وہ انسان ہے جس نے عملی طور پر پہلے خود قدم اٹھایا اور اس کے بعد لوگوں کو اس کی تلقین کی، منڈی بہاؤالدین میں ایک مدت سے سے بے آسرا اور غریب بچیوں کا گھر بسانے کی ان کی کاوشیں مدتوں سے جاری ہیں، منڈی بہاؤالدین کے پاس یہ جانتے ہیں کہ ہمارے شہر کے پینے کا پانی اس قدر آلودہ ہو چکا تھا کہ ہر تیسرے چوتھے آدمی کو ہیپاٹائٹس تشخیص ہوتا تھا، اس مسئلہ کو بھانپتے ہوئے شاہد رضا رانجھا نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر اورسیز فورم تشکیل دیا اور اس فورم کے تحت منڈی بہاؤالدین کے ہر گاؤں میں صاف پانی کے فلٹر پلانٹس لگوانے شروع کئے، منڈی بہاولدین کا شاید ہی کوئی علاقہ ایسا ہو جہاں کے رہائشیوں کو چند منٹ کی پیدل مسافت پر صاف پینے کا پانی میسر نہ ہو۔ کوئی حکومتی ایم این اے یہ کام کرتا تو یقین جانیے ایک مدت اس کی ایڈورٹائزمنٹ نہ ختم ہوتی، جانے کتنے الیکشن کا یہ احسان اتارنے میں اتر جاتے مگر شاہد رضا رانجھا اور ان کی ٹیم نے کبھی اس بات کی بہت زیادہ مشہوری نہیں کی بس چپکے سے کام کررہے ہیں، اسی طرح روزگار سکیم کے تحت لوگوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی مہم بھی قابل مثال ہے۔یہ تمام باتیں کرنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ شاہد رضا رانجھا وہ آدمی ہے جو اپنے لئے نہیں، دوسروں کے لیے سوچتا ہے۔اگر آج وہ یہ سوچ رہا ہے کہ سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملنا چاہیے تو اس کا صرف مقصد یہی ہے کہ پاکستان کو اوورسیز پاکستانیوں کی صورت میں قابل لوگوں کی خدمات میسر آئیں، چند دن پہلے ان کے ساتھ انٹرویو کرتے ہوئے انہوں نے اس بات کو دہرایا تو مجھے بہت پسند آئی کہ جب معاشی میدان میں وزیر خزانہ سمیت دیگر عہدوں پر سمندر پار پاکستانیوں کی خدمات ہی مشیر بنا کر حاصل کرنا ہے تو پاکستانی حکومت اس آئینی رکاوٹ کو ہمیشہ کے لئے ختم کیوں نہیں کر دیتی۔
شاہد رضا کے اس بات میں بھی وزن ہے کہ ووٹ کا حق اور وہ انتخابات لڑنے کا حق ملنے سے سمندر پار پاکستانیوں کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پاکستان سے ایک تعلق قائم ہو جائے گا، سمندر پار پاکستانیوں کے اس ناول کو اگر وطن پرستی کی زنجیر نہ ڈالی گئی تو یہ ناؤ اور اس کے مسافر ہمیشہ کے لئے آنے والے سالوں میں پاکستان سے دور ہو جائیں گے۔
اور صرف فورم کے زیراہتمام شاہد رضا رانجھا 23 جون کو اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے سامنے نے سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دلوانے کے لیے ایک مظاہرہ بھی کر رہے ہیں، ہمیں چاہیے کہ اگر ذاتی طور پر اس مظاہرے میں شریک نہیں ہو سکتے تو اپنے الفاظ یا کسی بھی صورت اس سے اظہار یکجہتی ضرور کریں کیونکہ شاہد رضا رانجھا کو بلاشبہ سمندر پار پاکستانیوں کا سفیر کہا جا سکتا ہے۔
٭٭٭