ظلم و ستم اور انسانیت سوز تشدد کی بڑھتی لہر!!!

0
23
شمیم سیّد
شمیم سیّد

اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی اور تشدد کی کہانیاں ان کے جسموں اور ذہنوں پر ناقابل فراموش نشان چھوڑ چکی ہیں۔ یہ محض ایک حادثہ نہیں، بلکہ ایک منظم اور پختہ حکمت عملی کا حصہ ہے، جس کا مقصد فلسطینیوں کو ذہنی، جسمانی اور روحانی طور پر توڑنا ہے۔ اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کا اگر گہرائی سے تجزیہ کیا جائے تو یہ صرف فرد واحد پر ہونے والی بدسلوکی نہیں بلکہ ایک منظم حکمت عملی کی غمازی کرتا ہے۔ دنیا بھر میں ظلم و ستم کی ایک تاریخ رہی ہے، جہاں انسانوں کو محض ان کے عقائد، نسل یا قومیت کی بنیاد پر اذیت کا نشانہ بنایا گیا۔ لیکن جب بات فلسطینی عوام کے حقوق کی آتی ہے، تو ایک خاص طور پر جیلوں اور حراستی مراکز میں ان پر کیے جانے والے انسانیت سوز سلوک کا تذکرہ غیر معمولی اہمیت اختیار کر جاتاہے۔ جب فلسطینی قیدیوں کے بیانات اور ان کی حالت زار کو دیکھا جائے، تو یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی فوج نے نہ صرف ان کے جسموں کو اذیت دینے کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے، بلکہ ان کے ذہنوں پر خوف اور نفسیاتی دبا ڈالنے کے لیے بھی یہی سلوک اپنایا گیا۔ محمد ابو طویلہ کی کہانی جو بی بی سی میں آئی، اس سے یہ حقیقت مزید واضح ہوتی ہے۔ ان پر کیمیکل پھینکا گیا اور جسم پر آگ لگا دی گئی، اور وہ جانوروں کی طرح تڑپتے رہے، مگر ان کے درد کی کسی نے پرواہ نہیں کی۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق، جنگی قیدیوں کے ساتھ انسانی سلوک روا رکھنا لازم ہے، چاہے وہ کسی بھی جرم میں ملوث ہوں۔ لیکن اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا ہے، وہ بین الاقوامی قوانین کے منافی ہے۔ یہ ظلم اور تشدد اسرائیلی فوج کی حکمت عملی کا حصہ نظر آتا ہے جس کا مقصد فلسطینیوں کو اذیت پہنچا کر ان کے حوصلے توڑنا اور ان کے عزم کو ماند کرنا ہے۔ اسرائیلی جیل سروس (آئی پی ایس) اور اسرائیلی فوج کی جانب سے ان الزامات کو رد کرنا ایک سنگین حقیقت کو چھپانے کی کوشش کے مترادف ہے۔ ان الزامات میں نہ صرف جسمانی تشدد کا ذکر ہے بلکہ جنسی تشدد اور ذہنی اذیتوں کا بھی تذکرہ ہے، جو کہ عالمی سطح پر جرم کے مترادف ہیں۔ فلسطینی قیدیوں نے جب اپنی کہانیاں دنیا کے سامنے رکھیں، تو ان میں سے ایک کا کہنا تھا کہ اسے جسمانی اذیت کے ساتھ ساتھ ذہنی اذیت بھی دی گئی۔ اس کا کہنا تھا، ”ہمیں ذہنی طور پر توڑنے کے لیے جیل میں رکھا گیا، اور ان کی ہر حرکت، ہر بات ہمیں ذہنی اذیت پہنچاتی تھی۔” انٹرویوز میں رہائی پانے والے پانچ فلسطینی قیدیوں نے بتایا کہ ان پر اسرائیلی فوجیوں نے شدید تشدد کیا۔ ان قیدیوں کا کہنا تھا کہ انہیں بجلی کے جھٹکے دیے گئے، کتے چھوڑے گئے اور انہیں طبی سہولتوں سے بھی محروم رکھا گیا۔ ایک قیدی نے اپنی کہانی بیان کرتے ہوئے بتایا کہ اس کے سامنے ایک دوسرے قیدی پر جنسی تشدد کیا گیا۔ یہ الزامات کوئی معمولی بات نہیں ہیں، بلکہ یہ ایک واضح طور پر غیر انسانی سلوک کا ثبوت ہیں۔ ایک اور قیدی نے بتایا کہ ”ہمیں مسلسل تشدد کا سامنا تھا، ہماری آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر ہمیں مارا پیٹا جاتا تھا اور ہمیں سوچی سمجھی اذیتوں کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔” ان قیدیوں کا کہنا تھا کہ اسرائیلی فوجیوں نے ان کے جسموں پر تیزاب ڈالا، ان کے ناخن نکالے اور جسم کے حساس حصوں کو نشانہ بنایا۔ یہ حقیقت صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں، بلکہ انسانیت کا مسئلہ ہے۔ عالمی برادری کا فرض ہے کہ وہ عالمی سطح پر اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کے بارے میں آواز اٹھائیں۔ اگر ہم ان مظالم کو خاموشی سے دیکھتے رہیں گے تو یہ نہ صرف فلسطینی عوام کی مشکلات میں اضافہ کرے گا بلکہ انسانیت کی بے حسی کو بھی اجاگر کرے گا۔ پاکستان نے ہمیشہ فلسطینیوں کے حقوق کے تحفظ کی بات کی ہے، اور یہ وقت ہے کہ اس مسئلے کو عالمی سطح پر ایک نیا زاویہ دیا جائے۔ فلسطینی قیدیوں کی حالت زار کو نظرانداز کرنا عالمی ضمیر کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کے ساتھ ہونے والے بدسلوکی کے پیچھے ایک گہری حکمت عملی ہے جس کا مقصد فلسطینیوں کو ذہنی اور جسمانی طور پر توڑنا ہے۔ اس حکمت عملی کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کو ہمیشہ ایک کمزور اور ہمت ہارنے والی قوم کے طور پر دکھانا چاہتا ہے، تاکہ عالمی برادری ان کے حقوق کے لیے آواز نہ اٹھائے۔ پھر ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ جب عالمی ادارے اسرائیل کے ان مظالم کو جانتے ہیں، تو وہ خاموش کیوں ہیں؟ جب تک اسرائیل پر عالمی دبا نہیں ڈالا جائے گا، تب تک اس کے یہ ظلم و ستم جاری رہیں گے۔ فلسطینیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے عالمی سطح پر مثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ ان کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کو اجاگر کرنے کے لیے صرف زبانی کلامی بیانات کافی نہیں ہیں، بلکہ عالمی برادری کو اس پر عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ اسرائیلی جیلوں میں فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی صرف ایک شخص کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ پورے انسانی معاشرے کا مسئلہ ہے۔ دنیا بھر کے ممالک، خاص طور پر پاکستان، فلسطینیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے یکجا ہو کر عالمی سطح پر اسرائیل کے ظلم کے خلاف ایک مضبوط آواز اٹھائیں۔ جب تک فلسطینیوں کو ان کے بنیادی حقوق حاصل نہیں ہوتے، اور جب تک ان کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کا سدباب نہیں کیا جاتا، تب تک یہ دنیا کے لیے ایک تاریک حقیقت رہے گی۔ عالمی عدالتوں کو فلسطینی قیدیوں کے ساتھ ہونے والے تشدد کی تحقیقات کرنی ہوںگی اور اسرائیل پر دبا ڈالنا ہوگا ۔ اس کے ساتھ ساتھ فلسطینی قیدیوں کے لیے انصاف کا حصول انتہائی ضروری ہے۔ فلسطینی قیدیوں کو فوری طور پر ان کے حقوق دیے جائیں، اور ان کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا ہے، اس کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ فلسطینی قیدیوں کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کی کہانیاں اس امرکا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ جب تک فلسطینی عوام کے حقوق کا تحفظ نہیں کیا جائے گا، تب تک عالمی برادری کی ساکھ میں کوئی اضافہ نہیں ہو سکتا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here