عصر عاشور ڈھل رہی تھی۔ نواسہ رسول کی لاش اطہر پر گھوڑے دوڑ رہے تھے اور علی و بتول کی بڑی صاحب زادی سیدہ زینب در خیمہ پر انگشتِ حیرت لبوں پر رکھ کر سوچ رہی تھی کہ اسی اُمت کومیرے نانا نے کلمہ پڑھایا تھا۔ اس دوران قاتلان حسین نیزوں کی انیوں پر آگ کے شعلے بلند کر کے خیام حسینی کو لوٹنے آگئے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں، بین الاقوامی ادارے اورمنصف مزاج ثالث غور کر کے بتائیں جو مظالم آخری نبی کے بہکے ہوئے امتیوں نے خاندان نبی پر کئے، کسی اور نبی کے دور میں اسکی مثال ملتی ہے؟ کربلا کے میدان میں آواز آرہی تھی!
لوٹو تبرکات علی و بتول کو قیدی بناکے لے چلو آل رسول کو
خاندان ابی سفیان کے وظیفہ خواروں نے چاروں طرف سے سادات نبی ہاشم اور انکے اعوان و انصار کے خیموں کو آگ لگا دی۔ سیدا نیوں کی پشتوں پر تازیانے مارے۔ تبرکات لوٹ لئے۔ معصوم بچیوں کے کانوں سے گوشوارے چھین لئے۔معصوم بچوں کو طمانچے اور تازیانے مارے۔ امام حسین کی چھوٹی صاحب زادی جسکا نا م فاطمہ تھا ۔جسکے القاب میں سکینہ و رقیہ معروف ہیں ۔ان کے دامن میں آگ لگ گئی تھی۔ اس بچی کے گوشوارے شمر ذی الجوشن قاتل امام حسین نے اتارے تھے جو مبرو ص تھا۔امام زین العابدین فرزند اکبر امام حسین غش کے عالم میں تھے ۔شمر نے انکے بستر کو کھینچا اور آپ منہ کے بل زمین پر گر پڑے تھے۔کربلا کے میدان میں شام غریباں سیدانیوں، بچوں اور اصحاب امام حسین کے اہل خانہ نے کھلے آسمان تلے گزاری۔ باذن خدا حضرت علی شام غریباں اپنی بچیوں کی مدد کیلئے آئے تھے۔ شب غریباں بچے گھوڑوں کے سموںتلے آکر مرتے رہے ۔جمال ملعون نے لاش امام حسین سے آپکے ہاتھ کاٹے۔ گیارہ محرم کو بیبیوں کے ہاتھ پس گردن باندھ دئیے گئے۔ اس لئے اکثر بچے پشت ہائے ناقہ سے گر گر کر مر گئے۔ جب مقتل سے بے کس محذرات گذریں تو انہوں نے خود کو بے پالان اونٹوں کی پشتوں سے گرادیا میدان کربلا میں ایک شو روشین تھا کلیجے منہ کو آرہے تھے ۔قیامت خیر مناظر تھے۔رسول زادیوں کے بین سن کر ایسے لگتا تھا جیسے آسمان گر یہ کنا ں ہو۔ زمین نوحہ خواں ہو۔ چارسالہ یتیمہ حسین اپنے بابا کے قاتل سے کہتی تھی کہ اے شمر! تمام بیبیوں کو کوفہ و شام لے جا مگر مجھے چھوڑ دے۔ تاکہ میں اپنے بابا کے پیاسے گلے پر پانی ڈالوں درختوں کے پتے چن کر لائوں کفن بنائوں او ر ابوذر صحابی کی بیٹی کی طرح چوراہے پر کھڑی ہوجائوں کہ کسی قافلے کی منت کرکے غریب زہر ا علیہ السلام کو سپرد خاک کر دوں۔ یہی بچی راہِ کوفہ میں پشت ناقہ سے گرگئی تھی ۔سید ہ زینب جب لینے گئیں تو آپ کی نعلین دوران سفر گرگئی تھی جب کانٹے چبھتے خون جاری ہوتا تو معظمہ فر ماتیں نانا آپ کا دین بچ گیا ۔سبحان اللہ عقیلہ بنی ہاشم نے کس طرح اپنے ناناکا دین بچایا ۔ھر ان کی بستی میں جب یہ قافلہ پہنچا تو اہل کتاب یحیی ھرانی نے سر حسین سے تعارف پوچھا جس پر باذن خدا سر مظلوم کربلا گویا ہوا اور سر نے اپنا تعارف کرایا۔ جس پر یحیی ھرانی مشرف بہ اسلام ہوا ۔اسنے لشکر یزید سے اپنی مختصر قوم کے ساتھ مل کر جنگ کی اور منصب شہادت پر فائز ہوا۔(جاری ہے)
حیی کی زوجہ نے مشرف بہ اسلام ہونے سے پہلے ہی سیدہ زینب اور دیگر بیبیوں کو مجلس حسین کی اجازت دی تھی ۔پہلی باقاعدہ مجلس حسین اہل کتاب کے گھر ہوئی۔ اسی لئے اہل کتاب کے ممالک میں مجلس حسین کی ہمہ وقت اجازت ہے ۔
نام نہاد مسلمانوں کے ممالک میں مجالس حسین پر بم مارے جاتے ہیں۔ جبکہ اہل کتاب کے ہاں مجلس و جلوس کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ بلکہ اہل کتاب کے ممالک میں بھی نام نہاد مسلمان ہیں۔ جو عزاداری کے جلوسوں کے مقابل پر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مساجد ضرار کے پر مٹ حاصل کرتے ہیں ۔
عیسائی پادری کے دیر راہب میں پورا کا پورا شہر سڑکوں پر نکل آیا تھا اور انہو ں نے واضح کیا تھا کہ مباھلہ والی فاطمہ کی بیٹیاں ہمارے شہر سے بغیر چادر کے نہ گذاری جا سکیں گی ۔راہب نے نبی زادیوں کے سروںپر چادریں تک کرائیں جو بعدمیں شمر کے حکم سے اتاری گئیں۔
ان غیر مسلموں پر اسیرانِ کربلا کے صبر کا اثر یہ ہوا کہ وہ مشرف بہ اسلام ہوتے گئے۔ فوج یزید اہل بیت نبی کی تذلیل کرنا چاہتی تھی تاہم وہ اپنی تذلیل کرتی چلی گئی۔
امام زین العابدین اور نبی زادیوں کے خطبوں نے ایک طرف یزیدی و زیادی قصر ھلا دئیے۔ انکے اقتدار کے بر ج الٹ دئیے ۔دوسر ی طرف فوجوں کی فوجیں مشرف بہ اسلام ہوتی رہیں۔
ارباب مقاتل نے لکھا ہے کہ جب نبی زادی سید ہ زینب نے کوفہ کے بھرے بازار میں خطبہ دیاتو اونٹوں کے گلوں کی گھنٹیاں بجنا بند ہوگئی تھیں۔ جبکہ فرزند رسول کے قتل کے بعد کوفہ کے ارباب اقتدار بازاروں میں عید جیسے جشن منار ہے تھے۔ سیدہ زینب نے بھرے بازار میں کہا اے اہل کوفہ! اے مکرو فریب کے پجاریو! نہ ر کیں تمہارے آنسو نہ تھمیں تمہارے نالے۔ آج تک اہل کوفہ رو رہے ہیں۔ ذرا سوچو تم نے کیا کر لیا ہے تم نے دائمی عار او رلعنت حاصل کر لی ہے ۔
دنیا میں ایسا کوئی پانی نہیں جس سے تم یہ داغ دھو سکو۔ تم پر اف ہو ،تف ہو،وائے ہو ،گھاٹے کا سودا کرنے والو! تم نے ذلت خریدی ہے۔ اے اہل کوفہ! رسو ا ہو جائو۔ جانتے ہو رسول عالمین کے کس جگر پارہ کو تم نے پامال کیا؟ کس خون کو تم نے صحرائے کربلا میں بکھیرا؟ کن محذرات کے سروں سے تم نے چادریں چھینیں ۔تم حیران ہو قتل حسین پر آسمان سے خون بر سا۔ حالانکہ قیامت کا عذاب زیادہ ہے۔
راوی کہتاہے کہ یہ خطبہ سن کر کوفہ لرزتا نظر آیا۔ جناب ام کلثوم نے دوسرے چوک پر خطبہ دیتے ہوئے کہا حمدو ثنا کے بعد فرمایا اے اہل کوفہ ! ذلیل رہو۔ تم نے نواسہ رسول کو پیاسا ذبح کیا۔ خیام لوٹے رسو ل زادیوں کو رسن بستہ کیا۔ لعنت ہوتم پر جانتے ہو تم نے کتنا ظلم کیا ہے کتنے خون بہائے دختر زہر ا کو قید کیا۔ افضل مردوں کے خون تم نے بہائے۔ تمہارے دلوں سے شرافت ختم ہوگئی ۔لوگ رونے لگے تھے۔ عورتیں سر نو چنے لگیں۔ منہ پر طمانچے مارنے لگے۔ مردد اڑھیاں نوچتے تھے۔
امام حسین کی صاحبزادی فاطمہ کبری نے کہا اہل کوفہ! اے مکرو فریب والو! اے دھوکا بازو! اے بحرغرور کے غرق شدہ! ہم علم الہی کا ظرف ہیں ۔ہم ادراک خالق کا خزینہ ہیں ۔ہم حکمت خدا کا گنجینہ ہیں ۔ہم حجت خدا ہیں۔اللہ نے ہمیں صاحب معجزات و کرامات بنایا ہے۔ تم نے ہمیں جھٹلاکر کفر کیا۔ تم نے اسی کوفہ میں ہمارے جد کو مارا۔ تمہاری تلواروں سے اہل بیت کا خون ٹپک رہاہے ۔تم اپنے مظالم پر بغلیں نہ بجائو۔ تمہیں یہ مظالم جلدعذاب خدا میں مبتلا کریں گے ۔
تم ضمیر مردہ ہو۔ تمہارے جگر پتھر ہیں۔ ابلیس لعن اللہ علیہ نے تمہاری آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے۔ ہم نے بھلا تمہارا کیا بگاڑا تھا؟ ا ے یزید و ابن زیاد! اپنے آبائو اجداد کی طرح خوش ہو لو ۔جو بو ئو گے وہی کاٹو گے۔ تمہارا نام گالی بنا رہے گا ۔ا س خطبہ کے بعد لوگ دیواروں پر سر مارتے تھے۔ امام زین العابدین نے بازار کوفہ میں خطبہ دیا ۔اے لوگو! جو مجھے جانتا ہے وہ جانتاہے۔ جو نہیں جانتا پہچان لے ۔میں علی ابن حسین ابن علی ابن ابی طالب ہو ں ۔میں وہ مظلوم ہوں جسکے اہل خاندان کو سفرمیں لوٹاگیا ۔میں وہ بے کس ہو ں جسکے خاندا ن کے خیام نظر آتش کر دئیے گئے ۔میں وہ غریب ہوں جس کامال لوٹا گیا ۔میں وہ تنہا ہوں جسکی مائوں بہنوں پھوپھیوں او ر مستورات کو اس کے سامنے رسن بستہ کیا گیا۔ میں وہ یتیم ہوں جس کے باپ کوکسی جرم کے بغیر قتل کیا گیا ۔
میں اس کا بیٹا ہوں جس نے زیر خنجر دا من صبر نہ چھوڑا۔ مجھے اس پر فخرہے ۔تم نے میرے بابا کو خط لکھے تھے پھر دھوکہ دیا خدا تم پر لعنت کرے۔ فردائے قیامت رسول کو کیا جواب دو گے؟ جب وہ پوچھیں گے کہ تم نے میری اولاد کو کس جرم میں ذبح کیا؟ میر ے ناموس کو رسیاں پہنانے والو ! تم میری امت نہیں ہو۔جب لٹا ہوا کا روانِ آل محمد عبیداللہ ابن زیادہ کے دربار میں پہنچا تو گورنر کوفہ نے امام حسین کے سر مقدس کو طشت میں رکھ کر لبوں پر چھڑی لگائی تو د و بزرگ صحابی زید ابن ارقم اور انس بن مالک نے کہا اے امیر! چھڑی ان لبوں سے ہٹا لے۔ ا س لئے کہ ہم نے رسول اسلام کو انہی لبوں کے بوسے لیتے ہوئے دیکھا تھا۔ اسی دوران ابن زیاد نے کہا تم رسوا ہوئے تم کس طرح قتل ہوئے۔ تمہارے جھوٹے اسلام اور جھوٹی نبوت ( معاذاللہ ) کی قلعی کھل گئی۔ جس پر سیدہ زینب نے کہا
اس اللہ کی حمدو ثناہے جس نے اپنے خاتم الانبیا محمد کے اہل بیت ہونے کاشرف بخشا اور ہمیں ہر قسم کے رجس سے پاک رکھ کے اسطرح طاہر کیا جس طرح حق ہے۔ ذلیل و رسوافاسق ہوتے ہیں ۔جھوٹ فاجر بولا کرتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ فاسق و فاجر ہمارے اغیار ہیں۔ ابن زیادنے کہا دیکھا! بی بی اللہ نے تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا؟ توبی بی نے فرمایا میں نے جو کچھ دیکھا ہے اللہ نے ہمارے ساتھ اچھا سلوک کیا ہے۔ میرے بھائی او ر انکے انصار کو منصب شہادت ملا تو انکے بارے نہ سوچ ۔تو یہ سوچ قیامت میں جب خدا ان شھدا کو تمہارے سامنے کھڑا کر کے پوچھے گا ان کا قصور کیاتھا؟ توتو کیا جواب دے گا؟ اے مرجانہ زادے! اس دن دیکھنا کو ن کامیاب ہوتا ہے؟ ابن زیاد نے سید سجاد کو قتل کرنا چاہا تو سیدہ زینب نے کہا پہلے مجھے قتل کر ۔سید سجاد نے کہا اے ابن زیاد! ہم قتل کی دھمکیوں سے مرعوب ہونے والے نہیں ہیں ۔ابن زیاد نے سید ہ زینب سے کہاکہ بی بی تمہارا بھا ئی خلافت کے حصول کے لئے نکلا تھا
جس پر بی بی نے فرمایا میرے بھائی کاحق تھا جو اللہ کی طرف سے انہیں ملا تھا۔
اسی دوران حضرت علی کا ایک نابینا صحابی عبد اللہ ابن عفیف ایزدی کھڑا ہوا اور اس نے پوچھا کہ کیا علی ظاہری طور پر زندہ ہو کر آ گئے؟ جس پر انہیں بتایا گیا یہ علی کی بڑی صاحبزادی ہیں۔کیونکہ مولا کی تمام اولاد میں صرف سیدہ زینب کا لہجہ علوی تھا۔عبداللہ ابن عفیف کے احتجاج پر انہیں پکڑ کر گھر پہنچا دیا تھا۔جہاں انہوں نے اپنی بیٹی کے ذریعے تلوار مانگی اور اشقیا کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔شہادت کے بعد جناب عبداللہ ابن عفیف کی صاحبزادی نے لاش سنواری ۔اور اشقیا نیکوئی مزاہمت نہ کی۔مگر افسوس کے کربلا میں امت نے امام حسین کی بیٹیوں کو لاش سنوارنے کی اجازت بھی نہ دی۔ابھی سیدہ زینب کا خطبہ ختم ہی ہوا تھا کہ زندان سے امیر مختار زنجیروں میں جکڑ کر لائے گئے۔پسر مرجانہ نیامیر مختار سے پوچھا تمہیں زندان سے کون چھڑائے گا؟
تو انہوں نے کہا میرے مولا حسین آتے ہی ہوں گے۔جس پر گورنر نے کہاتمہیں تمہارا مولا ابھی دیکھا دوں؟ جس پر امیر مختار دائیں بائیں دیکھنے لگے جس پر ابن زیاد نیسرِ حسین سے رومال ہٹا دیا۔امیر مختار نے بندھے ہاتھوں کو اپنے منہ پر مارا۔اور کہا یا اللہ! مجھے اس وقت تک موت نہ دینا جب تک میں ابن زیاد کا سر اسی طرح طشت میں رکھ کر فرزندِ حسین کے ہاتھ نہ بھیج دوں۔اسیرانِ کربلا کی تعداد میں اگرچہ اختلاف موجود ہے مگر زیادہ روایات میں یہ ملتا ہے ۔بچیچونسٹھ تھے۔جن میں سے پانچ واپس آئے۔بیبیاں چونسٹھ یا چوراسی تھیں۔جن میں سے بارہ واپس آئیں۔
جاری ہے. پیشکش:۔ حوزہ علمیہ المہدی امریکہ
کسی بھی دینی خدمت کے لئے ہم سے رابطہ کریں
AL-MAHDI FOUNDATION, INC.
PO BOX 521
BAYONNE, NJ 07002
PH: 856-266-5786
٭٭٭