واشنگٹن ڈی سی (پاکستان نیوز) امریکہ مختلف قومیتوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کا ملک ہے جہاں بنیادی انسانی حقوق، مذہبی آزادی کے بغیر معاملات بالکل نہیں چل سکتے ہیں، معاشرے میں عدم برداشت کا عنصر پروان چڑھنے سے نفرت آمیز واقعات سامنے آ رہے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معاشرے میں نفرت جنم کیوں لے رہی ہے ؟ تو اس کا ایک سیدھا سا جواب امریکہ کا میڈیا ہے ،میڈیا نے بہت کم مسلم کمیونٹی کا روشن چہرہ دکھایا ہے ، میڈیا میں زیادہ تر مسلم امریکنز کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ، مختلف جرائم سے جوڑ کر ان کی خبروں کو ہائی لائٹ کیا جاتا ہے ، یعنی بحیثیت مجموعی میڈیا نے مسلمانوں کو معاشرے میں منفی قوت کے طور پرپیش کیا ہے ، ایک کہاوت ہے کہ جھوٹ کو اتنا بولو کہ لوگوں کو سچ لگنے لگے ، بالکل اسی طرح میڈیا نے امریکنز مسلمانوں کے خلاف پراپیگنڈا کیا ہے جس سے آج کل نفرت آمیز واقعات جنم لے رہے ہیں ، ماہرین سیاسیات نے اس حوالے سے ایک تحقیق کے دوران پتہ لگایا کہ امریکنز مسلمانوں کے خلاف میڈیا میں مجموعی طور پر ڈھائی لاکھ سے زائد مضامین شائع کیے جا چکے ہیں ، ماہر سیاسیات ڈیوڈ لیٹین نے اس حوالے سے روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ شامی پناہ گزین جوکہ زیادہ تر مسلمان تھے کو عسائیت کے پیروکار یوکرینی باشندوں کے مقابلے میں امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا گیا، امریکیوں پر 2007 کے پیو ریسرچ سینٹر کے سروے سے پتا چلا کہ مسلمانوں کے بارے میں لوگوں کی منفی رائے زیادہ تر میڈیا میں سنی اور پڑھی جانے والی خبروں سے متاثر ہوتی ہے۔کمیونیکیشن اسکالر منیبہ سلیم اور ان کے ساتھیوں نے مسلمان امریکیوں کے لیے میڈیا کی معلومات اور “دقیانوسی عقائد، منفی جذبات، اور نقصان دہ پالیسیوں کی حمایت کے درمیان تعلق کو ظاہر کیا ہے، ریسرچ کے مطابق مسلمانوں کو نہ صرف امریکہ بلکہ برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا میں بھی بہت زیادہ منفی کوریج دی گئی۔گزشتہ تحقیق میں مسلمانوں کی میڈیا میں وسیع پیمانے پر منفی نمائندگی کی نشاندہی کی گئی ہے، کمیونیکیشن سکالرز سیف الدین احمد اور جی آر جی میتھیس کے ذریعہ 2000 سے 2015 تک کیے گئے مطالعات کا ایک جائزہ اس نتیجے پر پہنچا کہ میڈیا میں مسلمانوں کو منفی انداز میں ڈھالا گیا اور اسلام کو اکثر ایک پرتشدد مذہب کے طور پر پیش کیا گیا،ریسرچ کے دوران یکم جنوری 1996 سے 31 دسمبر 2016 تک 21 سالوں کے دوران امریکہ کے میڈیا میں مسلمانوں کے خلاف شائع ہونے والے ڈھائی لاکھ سے زائد مضامین کا جائزہ لیا گیا، جن میں 48 ہزار سے زائد مضامین ایسے تھے جس میں مصنف نے قیاس سے کام لیا، اسلامی تنظیموں کے لیے خفیہ تنظیموں، اور بارود کے لیے ایٹمی مواد کے مبہم لفظ استعمال کرکے مضمون کو دھماکے دار بنانے کی کوشش کی گئی۔نائن الیون کا زکر کیا جائے تو اس دہشتگردی میں چند عناصر ملوث تھے جس کی سزا پوری انسانیت کو چکانا پڑی ہے اور اس میں زیادہ قربانیاں مسلمانوں نے دی ہیں ، اور یہ بات بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ نائن الیون دھماکوں کے دوران مسلمانوں دہشتگردوں کی موجودگی کا کوئی شواہد سامنے نہیں آیا ہے اور نہ ہی امریکہ کی حکومت اس کو کسی پلیٹ فارم پر ثابت کر سکی ہے ، اور خالی نائن الیون کے واقعے کو مسلمانوں کیساتھ نہیں جوڑا گیا اس کے بعد جب منہاٹن میں دہشتگردی کے دوران جانی نقصان ہوا تو اس وقت بھی بغیر حقائق دیکھے الزامات مسلمانوں پر عائد کیے گئے ،اس کے بعد یورپ میں سیون الیون کے دوران جب خون کی ہولی کھیلی گئی تو اس وقت بھی امریکہ کے میڈیا نے یکطرفہ طور پر مسلمانوں کو اس میں قصور وار قرار دیا جبکہ یورپی ممالک نے بھی بغیر تحقیقات مسلمانوں کو مورد الزام ٹہرا دیا، میڈیا کی یہ کارستانیاں کسی سے دھکی چھپی نہیں ہیں ، جب کوئی فائرنگ ،دھماکے یا دہشتگردی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو سیدھی مسلمانوں پر ذمہ داری ڈال دی جاتی ہے ، اور اب تک یہی سلسلہ برقرار ہے ، سب سے دُکھ اور غور طلب بات یہ بھی ہے کہ امریکہ کے مسلمانوں کے پاس اپنا دفاع کرنے کے لیے قومی سطح پر کوئی پلیٹ فارم دستیاب نہیں ہے ، مسلمانوں کا کوئی مین اسٹریم میڈیا چینل نہیں ہے جس کی مدد سے مسلمانوں کیخلاف پراپیگنڈا مضامین اور خبروں کا مقابلہ کیا جا سکے۔ امریکن مسلم کمیونٹی کو چاہئے کہ اپنے دفاع کے لیے قومی سطح پر کوئی پلیٹ فارم تشکیل دے یا قومی سطح پر کوئی میڈیا چینل شروع کیا جا سکے جس کی مدد سے مسلمانوں کے دفاع کو یقینی بنایا جا سکے ۔