چار سال کا تھا جب میری ماں کا بایاں بازو ٹوٹنے کی وجہ سے مجھے جلد سکول کی پہلی جماعت میں ماسٹر جناب عبدالغفار شاہ صاحب کی شاگردی میں دے دیا گیا جناب شاہ صاحب بزم ادب کے انچارج تھے، انہوں نے پوچھا کچھ لکھنا پڑھنا جانتے ہو میرے ہاں میں ہلے سر نے میری زندگی کو اسلوب دے ڈالا، پہلے ہی دن میری گفتگو سے اندازہ لگاتے ہوئے جناب شاہ صاحب نے مجھے پہلے ہی دن پہلی جماعت کے قائدے میں موجود آدھے صفحہ پر مشتمل طارق کا خواب یاد کرنے سکول کا پہلا ہوم ورک دے دیا جسے میں نے اپنی ماں کیساتھ بستر پر لیٹے لیٹے یاد کر لیا ،اگلی صبح سکول اسمبلی میں جانے سے پہلے شاہ صاحب نے ایک طرف لے جا کر مجھ سے سنا ”لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری ”کے بعد سب کے سامنے کھڑا کر کے کہا کہ اب سب کو طارق کا خواب سنا ئو،میں نے تقریری انداز میں سنایا تو سنیئر کلاس کے استاد عبدالرحمن صاحب نے مجھے گود میں اٹھا کر نہ صرف پیار کیا بلکہ اپنی جیب سے ایک روپیہ انعام بھی دیا جسے میری والدہ نے فریم میں لگا کر گھر کی بیٹھک میں دیوار پر لٹکا دیا ۔اس چار بائی چھ کے فریم نے جادو کا کام کیا جب بھی کوئی مہمان آتا وہ فخر سے میرے سامنے اسے اپنے بیٹے کے کارنامہ سے آگاہ کرتی ۔شاہ صاحب نے تیسری جماعت میں مجھے بزم ادب کا جنرل سیکریٹری بنا دیا نہ صرف تقریری مقابلوں میں حصہ لیتا بلکہ سکول میں منعقدہ کسی بھی تقریب میں جنرل سیکریٹری کے فرائض بھی انجام دیتا ۔شاہ صاحب لکھ کر ایک ایک لفظ یاد کروا دیتے اشارے بتاتے کہاں کب کس کو کیسے سٹیج پر بلانا ہے۔ کیا کہنا ہے انعام میں ملی پہلی کتاب بانگ درا تو جیسے میں نے حفظ کر لی تھی بعد میں جب تھوڑا ہوش سنبھالا تو اسے ترجمہ اور تشریح کے ساتھ ہائی سکول میں اردو کے محترم استاد محمد ریاض صاحب سے باقائدہ ایک تسلسل سے پڑھی ،سال کے تقریبا ہر مہینے کسی نہ کسی کا دن منانے کے لیے تقریب منعقد کی جاتی جس میں تقریری مقابلے بھی ہوتے۔ شاہ صاحب سات سے دس صفحات پر مشتمل تقریر یاد کروا دیتے، تلفظ کی ادائیگی ،اشارے کہاں رکنا ہے، کہاں زور دینا ہے یہ سب کی اتنی پریکٹس کروا دیتے کہ اندرون و بیرون شہر تمام تقریری مقابلوں میں پہلی یا دوسری پوزیشن میری ہوتی۔ اس کے علاوہ بیت بازی کے مقابلوں کے لیے خاص تیاری کروائی جاتی اور شعر کی ادائیگی پر بھی زور دیا جاتا اس وقت کے یاد کئے گئے سینکڑوں اشعار ابھی تک حافظہ میں محفوظ ہیں۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں دیا گیا ہوم ورک کرنے کی بجائے رینالہ خورد میں موجود واحد میونسپل لائبریری سکول مکمل ہونے تک تقریبا پڑھ دی گئی ،سکول سے کالج جانا ہوا تو وہاں پر بھی یہی روٹین رہی بلکہ وہاں پر ادبی ذمہ داریاں مزید بڑھ گئیں۔ کالج میگزین کے ایڈیٹر کی اضافی ذمہ داری جس میں مواد جمع کرنا ،اسے ترتیب دینا، کاٹنا چھانٹنا ،کتابت کے لیے کاتب کو بھجوانا ،آفسٹ پریس سے چھپائی ،سب اس اکیلی جان کے ذمہ تھا ۔وہیں پر شاعری کا بھی آغاز ہوا، میری نظمیں ،غزلیں اور مضامین نہ صرف کالج میگزین بلکہ اخبارات کی زینت بھی بنے۔ یونیورسٹی میں میگزین ایڈیٹر کی ذمہ داری فرقہ بازی کی آڑ میں میری بجائے کسی بے ادب کو دی جانے سے بد دل ہو کر ادبی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ ادب کی بجائے سیاست کو اوڑھنا اور بچھونا بنانے پر مجبور سپیکر تو میں تھا ہی اسکول دور کا فخر ضلع ساہیوال سٹوڈینٹ پولیٹکس میں فصاحت و بلاغت کے دریا بہانے لگا یہاں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی پانے والے مرحوم پروفیسر ڈاکٹر فقیر حسین ساگا صاحب سے وہ کچھ سیکھنے کو ملا جو انسانوں یا جانوروں سے سیکھنا محال تھا۔ چار سال جانوروں کا علاج سیکھنے اور کرنے میں بسر ہوگئے پھر اتنے ہی مزید برس انسانوں کا علاج سیکھنے، کرنے اور انہیں سمجھنے میں گزر گئے ،عملی دنیا میں آیا تو ہاتھ میں نشتر لیے سر گنگا رام ہسپتال لاہور میں مرحومہ میڈم خالدہ عثمانی صاحبہ کی سرپرستی تھی جہاں ادبی زندگی کا ٹچ بھی تھا مگر زندگی سرپٹ گھوڑے کی طرح دوڑ رہی تھی لہٰذا مزید تعلیم کے لیے نکل پڑا پینتیس سے زائد ملکوں کی جہان گردی کے بعد قسمت گھیر گھار کر ساریکیوس، اپ سٹیٹ نیویارک کے پینتالیس ایکڑ کے سر سبز پھلوں اور پھولوں سے لدے فارم ہائوس میں لے آئی جہاں جنت نظیر قدرتی نظارے تھے بکریوں کی مے مے، مرغوں کی بانگیں ،جھرنے کے صاف شفاف پانی کی اونچائی سے گرتی آواز کا جلترنگ ،سروقداکے مکئی کے کھیت ،سردیوں کے موسم میں لاگ ہائوس کے چاروں اطراف پھیلی برف کی سفیدی میں قطار اندر قطار لگے کرسمس ٹری، اونچائی میں آتا لمبا بل کھاتا ڈرائیو وے گرم لحافوں میں دبکے فائر پلیس میں جلتی گیلی لکڑی کی مسحور کن خوشبو اور پہلی محبت کی اداس کہانی کے نئے موڑ کی انگڑائی نے جذبات کو الفاظ میں ڈھالنے پر اکسا دیا بس پھر جوانی سے ٹوٹا ہوا سلسلہ بحال ہو گیا اشعار کی آمد ہونا شروع ہوئی۔ ناصر علی سید اور عباس عدیم کی گراں قدر رہنمائی کا مشکور ہوں، حلقہ ارباب ذوق نیو جرسی کے صدر آفتاب قمر زیدی، فرح کامران، محمد حسین ایڈووکیٹ، ڈاکٹر محمد شفیق، شاہد کامریڈ، واصف حسین واصف، کامل احمر اور مجیب لودھی صاحب کا شکریہ ادا کرنا ازحد ضروری ہے کہ انکی سرپرستی ہمہ وقت ساتھ رہی۔ پہلی کتاب ہے اس لیے کسی صاحب طرز شاعر یا لکھاری سے کتاب یا شاعری پر مضمون لکھوانے کے لیے گزارش نہیں کی، کتاب چھپنے کے بعد اگلی کتاب یا ایڈیشن میں اپنی کاوشوں پر احباب کو اظہار خیال کی دعوت دونگا ،انشااللہ پبلشر صفدر حسین کا بھی شکریہ کہ کتاب آپکے ہاتھ میں ہے ۔قارئین سے گزارش کہ اس کتاب کو پیار کرنے والوں کے لیے تحفہ کے طور پر قبول فرمائیں کہ زندگی بھر پیار اور صرف پیار کیا ہے ،اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیا اور بشرط زندگی تندرستی یہی کچھ آگے بھی کرنا ہے کہ ہمیں تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا آخر میں اس پیار کی بات کہ جس کے پیار نے جینا سکھا دیا مجھ کو۔
٭٭٭