ایک نہایت ہی ملنسار دراز قد چہرے پر مسکراہٹ کئے ہوئے جب بھی ملاقات ہوتی لگتا تھا برسوں کی شناسائی ہے، اس وقت مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ کتنی قد آور شخصیت ہے جب ”جیو ”پر ان کا پروگرام دیکھا تو ان کے انداز گفتگو اور نپے تلے سوالات سنے تو اندازہ ہوا کہ واقعی کوئی شخصیت ہے اور جس طرح سے سامنے والے سے سوالات کیے جاتے اس سے علمیت کا اندازہ ہوتا ہے میری زیادہ ملاقاتیں نہیں تھیں ابھی کچھ عرصہ سے کچھ ملاقاتیں رہیں تو پتہ چلا تھا کہ جیو کے بعدبول ٹی وی میں آگئے ا سکے بعد حالات گردش میں امریکہ تشریف لے آئے اور یہیں پر فیملی کو بھی سیٹل کروا دیا اور خود بھی گرین کارڈ حاصل کر لیا۔ 25 سال صحافت کی دنیا میں مقام بنایا، پچھلے ہفتہ پاکستان سنٹر کے جناح ہال میں ان کے ساتھ ایک شام کا انعقاد پی اے جی ایچ کے تعاون سے کیا گیا کیونکہ تازہ تازہ پاکستان سے آئے ہوئے تھے اس لیے لوگوں کو پاکستان کے بارے میں جو معلومات فراہم کر سکتے تھے اس کے پیش نظر پروگرام رکھا گیا، بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی، پاکستان اور انڈیا جنگ کے بارے میں جو لوگوں کے دلوں میں خدشات تھے اور پاکستان کی سیاسی سمت، فوج کا کردار، آرمی چیف کا فیلڈ مارشل بننا، کراچی کے حالات، عمران خان اور الطاف حسین کی واپسی یہ وہ سوالات تھے جس کے بارے لوگ سننا چاہتے تھے اور فیصل عزیز خان نے جس طرح اپنی شائستہ اردو تقریر کی اس پر مجھے حسین حقانی یاد آگئے وہ بھی شعلہ بیان مقرر تھے مجھے یاد ہے گورنر ٹیکساس رک پیری کی ایک تقریب میں ہیوسٹن میں حسین حقانی کو سن کر بہت متاثر ہوئے تھے جس طرح ان کو امریکن پالیٹکس پر عبور حاصل تھا انہوں نے خواہش ظاہر کی تھی کہ یہ شخص مجھے چاہئے یہی چیز میں نے فیصل عزیز خان میں دیکھی ان کو بھی بولنے پر عبور حاصل ہے جس طرح انہوں نے پاکستانی فوج کے بارے میں وہ تمام خدشات جو لوگوں کے دلوں میں تھے جنگ سے پہلے پاکستانیوں کے دلوں میں جنرل عاصم منیر اور جرنیلوں کے بارے میں منفی سوچ تھی وہ اس جنگ کے بعد کافی حد تک دور کر دی ہے ،عمران خان کی قید کی وجہ سے لوگ بدظن تھے لیکن جب قوم اور ملک کی عزت کا سوال آجائے تو پوری قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتی ہے اور تمام اختلافات بھلا کر صرف ملک کی بقاء و سلامتی کیلئے کھڑی ہو جاتی ہے۔ فیصل عزیز خان نے جس طرح آرمی چیف حافظ سید عاصم منیر کاکیس لڑا وہ ان کی ذہانت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں تمام جرنیلوں کیساتھ رہا ہوں لیکن جو بات فیلڈ مارشل عاصم منیر میں دیکھی ہے وہ جنرل مشرف میں بھی نہیں تھی۔ انہوں نے بتایا کہ جنرل عاصم منیر باتوں پر یقین نہیں رکھتے وہ پریکٹیکل کرنے کے عادی ہیں اور جو کہتے ہیں وہ کر کے دکھاتے ہیں۔ یونیورسٹی آف ہیوسٹن کی طالبہ نے یہ سوال کیا کہ جنرل عاصم منیر کب ریٹائر ہونگے کیونکہ یہ سوال پاکستان کے بچے نہیں کرتے یہاں اوورسیز پاکستانیوں کو وہاں رہنے والوں سے زیادہ فکر ہوتی ہے، انہوں نے بتایا کہ جنرل عاصم منیر بڑے با صلاحیت جنرل ہیں وہ آئی ایس آئی کے چیف رہے، ایم آئی کے بھی چیف رہے، کوئی جنرل یہ دونوں عہدے اپنے پاس نہیں رکھ سکا، جو انہوں نے پاکستان میں اوورسیز پاکستانیوں کے اعزاز میں کی وہ سننے کے قابلت ھی وہ تقریر منظر عام پر نہیں آئی مگر یہاں دو افراد ایسے ہیں جو وہاں موجود تھے جن میں سراج نارسی اور جنرل سیکرٹری عامر زیدی وہاں موجود تھے انہوں نے جس جذبے کیساتھ تقریر کی وہاں موجود ایسے صحافی جن کی پوری زندگی جمہوریت کا گُن گاتے ہوئے گزری انہوں نے بھی تقریر کے بعد جنرل عاصم منیر کو مبارکباد دی اور ان سے گلے ملے وہ تھے سینئر صحافی سہیل وڑائچ، انہوں نے کہا یہی وقت کا تقاضہ ہے، عامر زیدی کیساتھ جنرل عاصم منیر کے تعلقات کا دو مرتبہ ذکر کیا، دیکھنا یہ ہے کہ اب پاکستان کو کس کی ضرورت ہے کیا شہباز شریف و زرداری پاکستان کو ٹھیک کیرنگے لگتا یہی ہے کہ ہمیں اپنے اپنے دماغی سوفٹ ویئر تبدیل کرنے ہونگے۔ ہمارے فیلڈ مارشل کو کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے، 16 ویں ترمیم میں ضرورت نہیں ہے، 75 سال سے ہم کنوئیں میں رہ رہے ہیں، آج پوری قوم فوج کیساتھ کھڑی ہے، ہماری سیاسی جماعتیں اس قابل نہیں ہیں کہ وہ کچھ کر سکیں سب سے پہلے اپنے اندر کی کرپشن کو ختم کرنا ہوگا، ہمیں نئی قیادت کو لانا ہے، ہمارے تمام سیاسی رہنما 70 سال سے اوپر کے ہیں، آئندہ دس سالوں میں سوائے بلاول بھٹو اور مریم نواز کے ہمارے پاس کوئی لیڈر نہیں ہے، عاصم منیر نے 2033 ء تک ٹارگٹ دیدیا ہے اور 2047ء تک انہوں نے پاکستان کو G-1 میں شامل کرنے کا عندیہ دیدیا ہے اس کا مطلب تو یہی ہوا کہ اب ہمیں فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کو صدارت کی طرف لے کر جانا ہے اور تمام سیاسی پارٹیوں کو اب نوشتۂ دیوار پڑھ لینا چاہیے ایک سوال جو ہیوسٹن کے شکیل خان نے کیا کہ فیلڈ مارشل 25 ہزار لوگوں سے 25 کروڑ لوگوں کو چھٹکارا دلا سکتے ہیں اس پر فیصل عزیز نے کہا کہ اب کچھ عرصے میں یہی کچھ ہونے والا ہے اب سیاسی پارٹیوں کا نمبر ہے ان کو ٹھوکا جائیگا، عمران خان کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ بے شک بڑے لیڈر ہیں اور ایماندار ہیں لیکن ان کے ارد گرد بھی مفاد پرست جمع ہیں ان کیساتھ بات چیت ہونی چاہیے انہوں نے الطاف حسین کے بارے میں کہا کہ ان کو کس نے روکا ہے پاکستان آنے سے وہ پاکستانی قونصلیٹ پر بھوک ہڑتال کریں کہ مجھے پاکستان جانا ہے پاسپورٹ دیا جائے یا ویزہ دیا جائے ان کو کوئی نہیں روک سکتا، وہ بلا مبالغہ مہاجروں کے واحد لیڈر ہیں ان کیساتھ کیا ہوگا جو بھی مقدمات ہیں ان کا سامنا کریں بہادری دکھائیں، انہوں نے الطاف حسین کے بارے میں جو منفی ویڈیو دکھائی گئی اس پر زیادتی کا اظہار کیا۔ جرنلسٹوں کے بارے میں انہوں نے معید پیرزادہ اور عمران ریاض کو جرنلسٹ ماننے سے انکار کیا۔ فیصل عزیز خان نے وہاں موجود لوگوں کے سوالوں کے بڑے ٹھنڈے دل سے جوابات دیئے اور یہ بات تو طے ہو گئی کہ وہ اس وقت فوج کیساتھ ہیں اور ڈالر 282 روپے پر کھڑا ہے، پرانے ریٹ پر جانے کو تیار نہیں ہے، بہرحال بہت عمدہ ماحول میں یہ شام اپنے اختتام کو پہنچی۔
٭٭٭












