لندن(پاکستان نیوز) پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان نے برطانیہ کے نومنتخب وزیر اعظم کیئر اسٹارمر سے کہا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کو لاحق خطرات کے حوالے سے آگہی بڑھانے کے لیے مدد چاہی ہے۔ اڈیالہ جیل سے آئی ٹی وی نیوز کو اپنے ایک انٹرویو میں عمران خان نے نومنتخب برطانوی وزیراعظم کو انتخابی فتح پر مبارکباد دیتے ہوئے ان سے کہا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کی بیخ کنی کو سمجھنے کے لیے ذرا تصور کریں کہ برطانوی انتخابی مہم میں لیبرپارٹی کے سینئر رہنماوں کو رات کے سناٹے میں اغوا کیا جارہا ہو۔ اپنے وکلا کے توسط سے انہوں نے بتایا کہ ایک برس ہونے کو آیا ہے مجھے سات فٹ چوڑائی اور 8 فٹ لمبائی کی موت کی کوٹھڑی میں قید کر کے رکھا گیا ہے یہ وہ جگہ ہے جو بالعموم دہشتگردوں اور ان لوگوں کے لیے مختص ہوتی ہے جنہیں سزائے موت سنائی گئی ہو۔ آئی ٹی وی کے مطابق ان کے وکلا نے آئی ٹی وی نیوز کو بھجوائے گئے سوالوں کے جواب دیے۔ نگرانی مستقل ہے اور پرائیویسی جیسی ہر چیز ادھیڑ کررکھ دی گئی ہے۔ 71 سالہ سابق کرکٹ اسٹار نے مزید کہا کہ وہ ملک میں جمہوری تبدیلی کے لیے پرعزم اور تیار ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ باوجود اس صورتحال کے انہوں نے نماز، مطالعے اور ورزش سے طاقت حاصل کی ہے۔ آئی ٹی وی سے بات کر تے ہوئے خان نے کہا کہ میں وزیر اعظم اسٹارمر اور ان کی کابینہ، جنہوں نے واقعی عوام کی حقیقی مرضی سے اور بغیر کسی انتخابی ہیرا پھیری کے کامیابی حاصل کی ہے، سے کہتا ہوں کہ زرا تصو ر کریں کہ ان کی یہ غالب فتح ہی چرا لی جائے، اس منظر نامے کی تصویردیکھیں جس میں ایک پارٹی بمشکل 18 نشستیں حاصل کر سکی اور اس نے ہمارا مینڈیٹ غصب کرلیا گیا ہو۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جہاں آپ کی پارٹی کا نشان ہی چھین لیا گیا ہو اور آپ کے رہنماوں کو یا توحراست میں لے لیا گیا ہو یا انہیں اس وقت تک ایذا دی گئی ہو جب تک کہ یا تو وہ اپنی وفاداریاں تبدیل نہ کرلیں یا پھر سرے سے سیاست کو ہی خیرباد کہہ دیں۔جنرل فیض کا ڈرامہ مجھے فوجی عدالتوں میں لے جانے کیلئے کیا جارہا ہے، لگتا ہے میرے خلاف وعدہ معاف گواہ بنائیں گے۔انھوں نے نئے توشہ خانہ ریفرنس کی اڈیالہ جیل میں سماعت کے دوران صحافیوں سے گفتگو میں کہا میرے خلاف تمام مقدمے فارغ ہوچکے،اسلئے مجھے اب فوجی عدالتوں کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ یہ جنرل فیض سے کچھ نہ کچھ اگلوانا چاہتے ہیں،ان سے کوئی نہ کوئی بیان دلوائینگے کہ 9 مئی سازش تھی، اگر فیض نے میری گرفتاری کا حکم دیا، سی سی ٹی وی فوٹیج چوری کی تو اسے پکڑیں، جو سازش کرتا ہے وہ جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ نہیں کرتا۔ رجیم چینج ہمارے خلاف ہوا اور مجھے ہی جیل میں ڈال دیا گیا، یہ کہہ رہے ہیں جنرل فیض ماسٹر مائنڈ تھا کہا فیض نے مجھے گرفتار کرایا۔انھیں شرم نہیں آتی ،یہ کہہ رہے ہیں جنرل فیض، بشریٰ کو ہدایات دیتا تھا۔ انھیں ڈر ہے قاضی فائز عیسیٰ چلا گیا ،الیکشن کی چوری کھل جائے گی۔ جنرل باجوہ نے میری کمر میں چھرا گھونپا ،اس نے نواز شریف سے ڈیل کرکے جنرل فیض کو عہدے سے ہٹایا ۔ صحافی نے سوال کیا آپ ہمیشہ جنرل فیض کا دفاع کرتے رہے، اب جب وہ گرفتار ہوگئے، آپکو کیوں خدشہ ہے، وہ وعدہ معاف گواہ بن جائے گا؟ اس پرعمران خان نے جواب دیا مجھے فکر نہیں، اگر وہ میرے خلاف کوئی گواہی دیتا ہے، میں جنرل فیض کی حد تک صرف یہ کہہ رہا ہوں وہ طالبان کے ساتھ تین سال تک مزاکرات کر رہا تھا، اسے ہٹانا نہیں بنتا تھا۔ میں نے جنرل باجوہ سے بھی کہا تھا اسے نہ ہٹاؤ۔ صحافی نے سوال کیا آپ اگر فوجی عدالت چلے گئے تو پارٹی کا کیا بنے گا ؟اس میں پہلے سے اختلافات چل رہے ہیں؟ اس پر عمران خان نے کہا یہ جو مرضی کرلیں ہماری پارٹی آئے روز مضبوط ہورہی ہے۔ صحافی نے سوال کیا بطور وزیر اعظم آپکو آرمی چیف بھی صحیح نہیں ملا، ڈی جی آئی بھی صحیح نہیں ملا، آفس بوائے بھی صحیح نہیں ملا تو آپ کس چیز کے وزیر اعظم تھے؟عمران خان نے جواب دیا میں نے جنرل باجوہ کی مکمل حمایت کی لیکن اس نے میری کمر میں چھرا گھونپا۔ مجھے پتہ نہیں تھا کور کمانڈر کیسے ہیں ؟ باجوہ نے مجھے بتایا جنرل فیض بہت قابل ہے، یہ آئی ایس آئی والے بندوں کو اٹھا کرگواہ بنالیتے ہیں۔ عمران خان کی گفتگو کے دوران فیملی کارنر میں خواتین کے شور کی آوازیں آتی رہیں، جس پر عمران خان بولتے ہوئے تین مرتبہ رکے۔