چٹھی میری چیف نوں پہنچائیں وے کبوترا

0
53

تجزیہ نگار:رمضان رانا
بعض جج صاحبان سپریم کورٹ کے جج نہیں کبوتر باز جج ہیں، جو خط باز بن کر عدلیہ کے خلاف بغاوت کرنے پر تلے ہوئے ہیں،کہ اگر ان ججوں کا رونا دھونا جاری رہے گا تو سائلوں کا کیا ہوگا،جن کے فیصلے نہیں خط بولتے ہیں کہ ججوں کو غیر ملکی دوروں سے سے کیوں روکا جا رہا ہے، ہمیں گرین پاسپورٹ کی بجائے نیلا پاسپورٹ دیا جائے جس میں تمام سرکاری مراعات شامل ہوں، لہٰذا ان ججوں سے پوچھا جانا چاہئے کہ آپ کی پاکستان کی قانون کی تعلیم پریکٹس اور معیار کیا ہے جو غیر ملکوں کے ججوں اور قانون دانوں کو متعارف کرانا چاہتے ہو ، وہ پاکستان یہاں صرف اور صرف 25 فیصد قانون نافذ ہو جس میں کریمنل لا کے علاوہ سول لا نہ ہونے کے برابر ہو جس ملک کا آئین پانچ مرتبہ منسوخ اور معطل کیا جا چکا ہو جس کی وجہ سے پاکستان پانچ مرتبہ ٹوٹ چکا ہو جس کے جج اور وکیل ایک فوجی جنرل کے نافذ قانون کے مطابق پریکٹس کرتے رہے ہوں وہ جج نہ جانے امریکہ اور برطانیہ آئے دن کیوں آنا جانا لازم سمجھتے ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ ہر حکومت اور سرکاری ادارہ کسی بھی شہری کی نقل و حرکت اور غیر ملکی آنے جانے پر پابندی عائد کر سکتی ہے، خاص طور ایک جج۔ جنرل اور دوسرا سرکاری ملازم حکومت کی پالیسی کے مطابق ہی غیر ملکوں کے دورے کر سکتے ہیں، اگر دورے کرنا اتنا ہی لازم ہو چکے ہیں تو ایسے خط باز جج پھر یہ بھارت کا دورہ کیوں نہ کرتے ہیں جس کا نو آبادیاتی قانون پاکستان کے آبادیاتی قانون سے ملتا جلتا ہے، یہ ججوں کو جاننا چاہئے کہ برطانیہ میں کوء تحریری آئین نہیں ہے، یہاں بادشاہت قائم ہے جس کے ماتحت پارلیمنٹ اور عدلیہ ہے جو آئین کی بجائے بادشاہت کی پیداواری ادارے ہیں، اسی طرح امریکی آئین سپریم ہے جس کے ماتحت تمام ادارے ہیں، جس کی کوکھ سے سپریم کورٹ آف یو ایس اے صرف جنم لیتی ہے، باقی تمام عدالتیں کانگریس تشکیل و تحلیل کرتی ہے جس کے ججوں کی نامزدگی صدر اور کانگریس منظوری دیتی ہے،جس کا آئین سپریم ہے،جس کی منسوخی کے لئے دو تہائی کانگریس کی بجائے دو تہائی ریفرنڈمی ریاستوں کے ووٹ چاہئیں، جو ممکن نہیں ہے جبکہ پاکستان میں برطانوی پارلیمنٹ کی طرح پارلیمنٹ سپریم ہے جو آئین کی تشکیل و تحلیل کر سکتی ہے، اس لئے پاکستانی ججوں کی نامزدگی اور برطرفی پارلیمنٹ کر سکتی ہے بشرطیکہ پارلیمنٹ مضبوط ہو تاہم ججوں کو اپنی آئین کے دائر کار میں رہتے ہوئے
اپنی تشریحات سے پاکستان کے آئین پیروی اور حفاظت کر نا چاہئے جو آئے دن جنرلوں اور ججوں کے ہاتوں رسوا ہوتا رہتا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here