سٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق وفاقی حکومت کے قرضے میں گزشتہ مالی سال کے دوران 8.07 کھرب روپے یا 13 فیصد کا اضافہ ہوا،اس اضافے کے بعد جون 2024 کے آخر تک مجموعی طور پر قرض کا حجم 68.9 کھرب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ قرضوں کا بوجھ صرف ایک ماہ میں 1.7 فیصد بڑھا ہے، مئی کے آخر تک یہ 67.73 کھرب روپے تھا۔قرضوں میں تیزی سے اضافے نے حکومت اور عوام دونوں کے لیے مالیاتی چیلنجز میں سنگین اضافہ کر دیا ہے۔ حکومت کو اب اپنے قرضوں کی ادائیگی اور ترقیاتی منصوبوں کی فنڈنگ میں مشکلات کا سامنا ہے جبکہ شہری نئے ٹیکسوں کا بوجھ اٹھا تے ہوئے نئے ٹیکسوں کے خدشات کا شکار ہیں۔ سابق پی ڈی ایم حکومت کی طرح مسلم لیگ نواز کی موجودہ حکومت بڑھتے ہوئے قرضوں کے باوجود اپنے اخراجات کو کم کرنے میں ناکام رہی ہے، جس سے عوام کو کچھ ریلیف اور ترقیاتی اخراجات کی سہولت مل سکتی ۔ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے لیے بجٹ کی مختص رقم کو بڑھاتے ہوئے اخراجات کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے بار بار کم کرنے کا اعلان کیا گیالیکن حکومتی مراعات، اراکین پارلیمنٹ کی مراعات اور افسر شاہی کے اخراجات میں قابل قدر کمی نہیں آسکی ۔ مالی سال 23 میں اقتصادی سکڑاو اور مالی سال 24 میں 2.4 فیصد کی معمولی شرح نمو میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں عوام کو ترقیاتی منصوبوں سے اپنا حامی بنانے کی ایک غلط روایت پڑ چکی ہے ۔حکومتیں بھاری قرض لے کر میگا ترقیاتی منصوبے تیار کرتی ہیں اور پھر یہ ناقص منصوبے خزانے پر بوجھ بن جاتے ہیں۔حکومت نے زیادہ تر اخراجات پورے کرنے کے لئے اضافی قرضے سے معاونت لی ہے۔ حکومت ہر سال قرض کی ادائیگی کی مد میں کھربوں روپے ادا کر رہی ہے۔رواں مالی سال کے لیے، حکومت نے قرض کی ادائیگی کے لیے 9.78 کھرب روپے مختص کیے ہیں، جو کہ 18.9 کھرب روپے کے کل بجٹ کے نصف سے بھی زیادہ ہیں۔اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ وفاقی حکومت کے داخلی قرضوں میں 8.35 کھرب روپے کا نمایاں اضافہ ہوا، جو جون 2023 میں 38.81 کھرب روپے سے بڑھ کر جون 2024 کے آخر تک 47.16 کھرب ہو گیا۔قومی قرض کی مد میں پاکستان انویسٹمنٹ بانڈزکا حصہ سب سے زیادہ ہو چکا ہے ، جو سال بھر میں 6 کھرب روپے اضافے کے ساتھ 28 کھرب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ مارکیٹ ٹریژری بلز، جنہوں نے مالی سال 24 کے دوران تقریبا 444 ملین ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کیا،ان سے جون 2024 تک کل قرض میں 10.25 کھرب روپے تک اضافہ ہوا، جو جون 2023 میں 9.33 کھرب روپے تھا۔ بلاشبہ پاکستان کو قرضوں کے سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ یہ چیلنجز کیا ہیں اور ان پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے؟ اگر موجودہ صورتحال آئندہ کچھ برسوں میں برقرار رہی تو پاکستان کی معیشت کا کیا حال ہو سکتا ہے؟ سیاستدان اور حکام آنے والے چیلنجوں کا کیسے مقابلہ کر سکتے ہیں؟اوور لیپنگ جنریشنز ماڈل قرض کی بلند سطح سے وابستہ منفی نتائج کا ایک جامع تجزیہ فراہم کرتا ہے۔ ان میں اقتصادی ترقی پر منفی اثرات، بدلی ہوئی توقعات، بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتحال، خودمختار پیداواری اہداف میں تبدیلیاں، اور حقیقی سود کی شرحیں شامل ہیں۔ بالآخر، یہ عوامل نجی سرمایہ کاری کے مواقع و حجم کو کم کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ جب کسی ملک کی آمدنی میں اضافہ غیر پائیدار ہو،قطع نظر اس کے کہ کوئی ملک ترقی یافتہ ہے یا ترقی پذیر، قرض سے جی ڈی پی کا بڑا تناسب ڈیفالٹ کے امکان کو بڑھاتا ہے۔ معیشت کے حجم کے لحاظ سے قرض کی سطح ملک کی قرض کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی صلاحیت کا اندازہ لگانے میں ایک اہم عنصر بن جاتی ہے۔ دسمبر 2022 میں، مثال کے طور پر، ریاستہائے متحدہ امریکہ کا قرض سے جی ڈی پی کا تناسب 123.4 فیصد تھا، کانگریس کے بجٹ آفس اور امریکی محکمہ خزانہ کی جانب سے انتباہات جاری کیے گئے تھے۔ یہ ایک ایسے نقطہ کی طرف اشارہ کرتا ہے جہاں حکومت اپنی مالی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے مختلف حلقوں کی محتاج ہو سکتی ہے۔قرضوں کو دوبارہ شیڈول کرانا اور مارکیٹ سے مزید قرض لینے کا حکومتی طریقہ بینکنگ سیکٹر کے لئے خطرے کے خدشات کو جنم دیتا ہے۔ بینکوں کا 80% سے زیادہ قرضہ حکومت کی طرف ہے۔ اس طریقے سے اضافی قرض لینے سے قرض کا جال بنتا ہے جو عوامی بہبود پر منفی اثر ڈالتا ہے اور آنے والے برسوں میں ٹیکس کے بوجھ میں اضافہ کرے گا۔پاکستان کا ٹیکس ڈھانچہ بالواسطہ ٹیکسوں کی حمایت کرتا ہے، جو کل ٹیکسوں کا تقریبا 60 فیصد بنتا ہے۔ تقریبا 70 فیصد براہ راست ٹیکس ودہولڈنگ ٹیکس سے حاصل ہوتے ہیں۔ ود ہولڈنگ ٹیکس کو چھوڑ کر، کل ٹیکس وصولی میں براہ راست ٹیکس کا حصہ نمایاں طور پر کم ہو جاتا ہے۔ دنیا بھر کی حکومتیں اکثر نئے ٹیکس عائد کرتی ہیں یا آمدنی پیدا کرنے اور خسارے کو پورا کرنے کے لیے بالواسطہ ٹیکسوں کی شرحیں بڑھا دیتی ہیں۔پھر بھی اس طرح کی پالیسیاں مہنگائی میں اضافے، کاروباری لاگت میں اضافہ، قوت خرید میں کمی اور معاشی اور سماجی عدم مساوات کا باعث بن سکتی ہیں۔ اگر یہ صورت حال برقرار رہی تو پاکستان میں افراط زر کی شرح 30 فیصد سالانہ سے تجاوز کر سکتی ہے، جس سے مقامی پیداوار پر اثر پڑے گا اور زرمبادلہ کی طلب میں اضافہ ہو گا۔اس صورت میں ممکنہ طور پر روپے کی قدر میں کمی ہو سکتی ہے۔
٭٭٭