بنگلہ دیش میں تطہیر کا عمل جاری ہے!!!

0
28
حیدر علی
حیدر علی

خوش آئند امر یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے چیف جسٹس عبید الحسن نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے، وہ شیخ حسینہ کے دور کے باقیات میں سے تھے۔ اُن کا استعفیٰ بھی کچھ ڈرامائی انداز میں رونما ہوا، موصوف نے ہفتے کی صبح ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کی ایک میٹنگ بلائی تھی جس میں اِس امور پر غور ہونا تھا کہ نئی حکومت کے دوران عدلیہ کی کاروائیوں کو کس طرح رواں رکھا جائے، بدقسمتی سے اُن کی یہی کاوش اُن کی رخصتی کا باعث بن گئی، طلبا کا جم غفیر آصف محمود جو نئی حکومت میں ایڈوائزر کے عہدے پر بھی فائز ہیں کی قیادت میں ڈھاکا ہائی کورٹ کی بلڈنگ پر دھاوا بول دیا اور مطالبہ کیا کہ چیف جسٹس عبیدالحسن اور دوسرے کرپٹ سپریم کورٹ کے ججز فوری طور پر مستعفی ہوں، چیف جسٹس کیلئے اِس کے سواکوئی اور چارہ نہ تھا کہ وہ فوری طور پر اپنا استعفیٰ پیش کر دیں، ڈھاکا یونیورسٹی کے ایم اے انگلش کے ایک طالب علم نے اُن کے استعفی پر تبصرہ کرتے ہوے کہا کہ ” ہمیں یقین ہے کہ متذکرہ ججز نہ صرف عوامی لیگ کی حکومت کے حمایتی تھے بلکہ ہم پورے وثوق سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اُن کی پاکٹ کی زینت بھی بنے رہتے تھے۔ اِس لئے ہم مزید کسی بدعنوان جج کو عدلیہ میں دیکھنا نہیں چاہتے ہیں، ہم ایک نئے نظام کی تشکیل دینا چاہتے ہیں جس میں امتیاز ات کی کوئی گنجائش نہ ہو اور یہ ممکن نہیں جب تک بدعنوانیت ہم پر مسلط رہے” اِس میں کوئی شک نہیں کہ سابقہ عوامی لیگ کے دور میں عدالت طوائف کا کوٹھا بن گیا تھا اور فیصلے محکمہ قانون سے ڈکٹیٹ کئے جاتے تھے۔ سابقہ وزیراعظم شیخ حسینہ کا انٹرنیشنل وار کرائمز ٹریبو نل بنگلہ دیش کا قیام اِسی سلسلے کی ایک کڑی تھی، ٹریبونل کے قیام کا مقصد ہی بنگلہ دیش سے اسلامی اسکالرز کا کا صفایا کرنا تھا تاکہ ہندو اثر و رسوخ کے نفوذ میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو، وار کرائمز ٹریبونل کا کام اُن افراد کی نشاندہی کرنا تھا جو 1971ء کی بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ میں بنگالیوں کے قتل عام کے ذمہ دار تھے حالانکہ 1971 اور اُس سے قبل مکتی باہنی نے لاکھوں کی تعداد میں بہاریوں کو قتل اور اُن کے گھروں اور بزنس پر قبضہ کیا تھا،بہرکیف نشاندہی کے بعد مذکورہ افراد گرفتار کئے جاتے تھے ، اور اُن کا مقدمہ ٹریبونل کے ججز عدالت میں کیا کرتے تھے، مضحکہ خیز امر یہ ہے کہ عدالت کے کمرے سے گواہوں کو اغوا کرلیا جاتا تھا اور نامزد مجرموں کو بے دریغ سزائے موت دے دی جاتی تھی،تطہیر کے عمل سے بنگلہ دیش سپریم اور ہائی کورٹ کے تین درجن سے زائد ججز گھر بھیج دیئے گئے ہیں، بنگلہ دیش میں بدعنوان اور عوامی لیگ کے حمایتی اعلیٰ حکام کی تطہیر کا عمل زور و شور سے جاری ہے،متعدد یونیورسٹی کے پروفیسرز اور وائس چانسلرز بھی اِس کی زد میں آچکے ہیں، وجہ اِس کی یہ ہے کہ جب کوٹہ ریفارم کی تحریک طلبا کی جانب سے چل رہی تھی اور اُن پر عوامی لیگ کے غنڈے حملہ آور ہورہے تھے جس سے طلبا زخمی اور شہید ہورہے تھے ، لیکن اُس دوران بیشتر یونیورسٹی کے وائس چانسلرز خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہنے کو ترجیح دی تھی تاہم سابقہ وزیراعظم شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمہ کے بعد مذکورہ وائس چانسلرز نے رضاکارانہ طور پر خود استعفیٰ دینا شروع کر دیا ہے، گزشتہ پندرہ سال تک عوامی لیگ کے دور میں کالجوں اور یونیورسٹی کے پروفیسرز کو اُن کی صلاحیت ، قابلیت اور تجربے کو نظر انداز کرکے وائس چانسلرز کے عہدے پر فائز کیا جاتا رہا ہے، جس کے نتیجے میں جب بھی کبھی طلبا کا یونیورسٹی میں کسی مطالبے کے لئے مظاہرہ ہوا تو تمام مذکورہ وائس چانسلروں نے ایک مشترکہ لائحہ عمل اختیار کیا اور اُنہوں نے طلبا کی مخالفت کی، تازہ ترین کوٹہ ریفارم کی تحریک میں جب عوامی لیگ کی طلبا تنظیم چھاترا لیگ،پولیس اور دوسری قانون نافذ کرنے والی تنظیموں نے یونیورسٹی کے احاطہ میں مظاہرہ کرنے والے طلبا پر منظم طور پر حملہ آور ہوتے تھے تو یہ وائس چانسلرز اپنے طلبا کی حفاظت کیلئے کچھ بھی نہیں کیا تھا، ایک اندازے کے مطابق سینکڑوں سے زائد وائس چانسلرز اور پروفیسرز استعفیٰ دے چکے ہیں، اور اتنی ہی کی
تعداد میں استعفی کے خطوط کو تحریر کر رہے ہیں، معلوم ہوا ہے کہ جب ڈھاکا یونیورسٹی کے وائس چانسلرز کو استعفیٰ دینے کیلئے فون کیا گیا تو وہ روتے ہوے اپنی نوکری کی بھیک مانگنے لگے،تازہ ترین اطلاع کے مطابق سابقہ وزیراعظم شیخ حسینہ کے دور میں لوگوں کو لاپتہ کرنے کی واردات محض کوئی من گھڑت کہانی نہیں ہوتی تھی، اب اِس سے پردہ چاک ہونا شروع ہوگیا ہے اور جسے سن کر رونگٹے کھڑے ہونا شروع ہوجاتے ہیں، احمد بِن قاسم جو ایک بیرسٹر تھے گزشتہ آٹھ سال سے شیخ حسینہ کی خفیہ جیل میں قید تنہائی میں تھے، قاسم کو مبینہ طور پر اغوا کیا گیا تھا اور اُن پر محض اِس وجہ کر تشدد کیا جاتا تھا کہ وہ اپنے والد پر لگائے گئے سیاسی مقدمہ کا دفاع کر نا چاہتے تھے تاہم اُن کے والد کو شیخ حسینہ کے حکم پر تختہ دار پر چڑھا دیا گیا تھا، اُن کی رہائی بنگلہ دیش میں سیاسی انقلاب اور طلبا تحریک کی بنا پر عمل میں آئی ہے، ہاتھوں میں زنجیر اور آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا بنگلہ دیشی بیرسٹر نے پہلی مرتبہ کھلی فضا میں سانس لیا تھا، لیکن اُنہیں پستول لوڈ کرنے کی آواز آرہی تھی، کسی وجہ کر اُنہیں ہلاک کرنے والے سڑک پر پھینک کر فرار ہوگئے تھے، یہ کاروائی بنگلہ دیش کی ملٹری انٹیلی جنس ڈائریکٹریٹ نے شیخ حسینہ کے حکم پر کیا تھا، دلچسپ امر یہ ہے کہ بیرسٹر قاسم کے گھر والوں نے اُن کی غائبانہ جنازہ کی نماز بھی پڑھادی تھی، شیخ حسینہ کے دور میں بنگلہ دیش کے سینکڑوں معزز شہریوں کو سیاسی بنا پر اغوا کرکے قید تنہائی کے نذر یا ہلاک کردیا گیا تھا،بیرسٹر قاسم نے بتایا کہ اُن کے جیل کا کمرہ اتنا چھوٹا تھا جو بذات خود ایک قبر معلوم ہوتا تھا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here