ایک نئی تجارتی جنگ کا آغاز!!!

0
31
شمیم سیّد
شمیم سیّد

عالمی سطح پر، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے اطلاق کے بعد بالخصوص چین کے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کو جائن کرنے کے بعد، سپلائی چینز اتنی بین الاقوامی ہو چکی ہیں کہ کسی بھی پروڈکٹ کے اجزا دنیا کے کونے کونے سے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔لھذا معاشی بدحالی اور کساد بازاری کے دور میں اقتصادی بدحالی کے اثرات بھی ایک ملک سے دوسرے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیتے ہیں اور تجارت کے لیے تباہ کن نتائج نکلتے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ بدھ کو کئی ممالک سے امریکہ میں درآمد ہونے والی مصنوعات پر نیا ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنی مرضی کی مطابق تقریبا 60 ممالک پر یہ ٹیرف نافذ کیا ہے جن میں امریکی صدر کے بقول زیادہ تر وہ ممالک شامل ہیں جو امریکی مصنوعات پر زیادہ محصول وصول کرتے ہیں۔ تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فہرست میں چھوٹی معیشتوں، اتحادی اور حریف ممالک سمیت امریکہ کے تمام تجارتی شراکت دار بغیر کسی تفریق کے شامل ہیں۔ 10 فیصد فلیٹ ٹیرف 5 اپریل سے نافذ کردیا گیا ہے جبکہ دیگر ٹیرف 9 اپریل سے لاگو ہوں گے۔ ٹیرف، اندرون ملک عائد کیے جانے والا، ایک ٹیکس ہے جو بیرون ممالک سے پہنچنے والے سامان تجارت پر عائد کیا جاتا ہے ۔ اس کا نفاذ درآمدات کی قیمت کے تناسب سے ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ درآمدات پر ٹیرف میں کسٹم ڈیوٹی اور ریگولیٹری ڈیوٹی شامل ہوتی ہے جسے بڑھا کر کسی ملک میں باہر سے چیزیں منگوانے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ امریکہ میں جن ممالک پر یہ نیا ٹیرف لگایا گیا ہے ان میں پاکستان بھی شامل ہے اور اس کی امریکہ برآمد کی گئی مصنوعات پر 29 فیصد ٹیرف عائد کیا گیا ہے۔ پاکستان کے علاوہ انڈیا اور بنگلہ دیش کی امریکہ برآمد کی جانے والی مصنوعات پر نئے ٹیرف کا اعلان کیا گیا ہے جس میں انڈیا پر 26 فیصد اور بنگلہ دیش پر 37 فیصدٹیرف عائد ہو گا۔ اسی طرح امریکی صدر کی جانب سے ویتنام پر 46 فیصد اور چین پر 34 فیصد نیا ٹیرف نافذ کیا گیا ہے جس سے ٹرمپ کی جانب سے چین پر لگائے گئے نئے محصولات 54 فیصد ہوجایئں گے۔ یورپی یونین پر بھی 20 فیصد ٹیرف لگایا گیا ہے۔ 10 فیصد محصولات کا سامنا کرنے والے ممالک کی فہرست میں برطانیہ، آسٹریلیا، سنگاپور، برازیل اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ دوسری جانب امریکہ کی جانب سے اپنے ہمسایہ ملکوں، کینیڈا اور میکسیکو پر مزید ٹیرف نہیں لگایا گیا کیونکہ دونوں ممالک کی امریکہ کی طرف برآمدات پر پہلے ہی 25 فیصد ٹیرف نافذ ہے، سوائے ان مصنوعات کے جو امریکہ کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے کے تحت شمار کی جاتی ہیں۔ امریکہ کی جانب سے اپنے ملک میں آنے والی مصنوعات پر لگائے گئے حالیہ ٹیرف سے وہ ممالک سب سے زیادہ متاثر ہوں گے جن کی برآمدات کی سب سے بڑی منڈی امریکہ ہے۔ الجزیرہ نیوز چینل میں شائع ہونے والے ڈیٹا کے مطابق، 2024 میں میکسیکو نے امریکہ کو 505.9 بلین ڈالر کا سامان برآمد کیا۔ دوسرے نمبر پر چین تھا جس نے 438.9 بلین ڈالر کی مصنوعات برآمد کیں جبکہ کینیڈا نے 412.7 بلین ڈالر؛ جرمنی نے 160.4 بلین ڈالر؛ اور جاپان نے 148.2 بلین ڈالر کی اشیا امریکہ کی منڈیوں میں برآمد کیں۔ تاہم قابلِ غور بات یہ ہے کہ ان ملکوں کی جانب سے امریکہ برآمد ہونے والی اشیا ، ان ملکوں کی کل برآمدات کا کتنے فیصد تھیں؟ اقوام متحدہ کے کامٹریڈ کے اعداد وشمار کے مطابق، 2023 میں کینیڈا کی کل برآمدات کے 77.6 فیصد جبکہ میکسیکو کی کل برآمدات کا 79.6 فیصد امریکہ پہنچا۔ دوسری جانب، امریکہ اگرچہ یورپی یونین کی سب سے بڑی برآمدی منڈی ہے مگر یورپی یونین کی مصنوعات خریدنے والوں میں بہت سارے دوسرے ممالک بھی شامل ہیں۔ ڈیٹا کے مطابق 2023 میں یورپی یونین کی برآمدات میں امریکہ کا شیئر 20 فیصد سے بھی کم تھا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اگرچہ چین کی مصنوعات پر بھاری ٹیرف عائد کیا گیا ہے مگر کینیڈا اور میکسیکو کے مقابلے میں چین کم متاثر ہوگا کیونکہ 2023 میں چین کی مجموعی برآمدات کا صرف 14.8 فیصد امریکہ کی جانب گیا۔ حالانکہ، امریکہ اس سال چین کی سب سے بڑی برآمدی منڈی تھا مگر چین کے بہت سارے برآمدی مقامات ہیں جن میں جاپان، جرمنی، ہندوستان اور میکسیکو شامل ہیں۔ دنیا کے دوسرے ممالک کی طرف سے جوابی اقدامات کا جہاں تک تعلق ہے تو دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت (چین) نے جوابی اقدامات کا اعلان کردیا ہے۔ چین کی وزارت خارجہ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے عائد کردہ محصولات کے خلاف چار اپریل کو متعدد جوابی اقدامات کا اعلان کیا ہے، جس میں تمام اشیا پر 34 فیصد اضافی محصولات اور کچھ نایاب معدنیات کی برآمد پر پابندیاں شامل ہیں۔ چین جیسی دوسری بڑی اقتصادی طاقت کی طرف سے کیے گئے جوابی اقدامات سے جس چیز کا واضح تاثر ملتا ہے وہ یہ ہے کہ گزشتہ کچھ سالوں سے عالمی طاقتوں کے مابین تجارتی جنگ اب مزید گہری ہو رہی ہے۔ چین کے مطابق اضافی محصولات 10 اپریل سے نافذ کیے جائیں گے۔ یاد رہے کہ بیجنگ اس سے قبل امریکہ سے کوئلے اور مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی درآمدات پر 15 فیصد ٹیرف لگا چکا ہے جس کے جواب میں واشنگٹن نے چینی سامان پر 10 فیصد محصولات عائد کیے تھے جبکہ چین نے امریکہ کو برآمد کی جانے والی اہم معدنیات اور کچھ مخصوص کاروبار پر سخت برآمدی کنٹرول کا بھی اعلان کیا ہے تاکہ ان سیکٹرز میں ہونے والی باہمی تجارت کو محدود کیا جاسکے۔ چین کے مطابق، ان اشیا پر برآمدی کنٹرول کے نفاذ کا مقصد قومی سلامتی اور مفادات کا بہتر طور پر تحفظ کرنا اور ایٹمی عدم پھیلاو جیسی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہے۔ دوسری طرف، چین نے ٹرمپ کی جارحانہ تجارتی پالیسیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں نئے امریکی محصولات کے خلاف باقاعدہ شکایت درج کرادی ہے ۔ چین کے بقول یہ اقدامات ڈبلیو ٹی او کے قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔ کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی نے جمعرات کو اعلان کیا ہے کہ ان کا ملک CUSMA Non کے تحت امریکہ سے کینیڈا برآمد کی جانے والی آٹوز پر 25 فیصد محصولات عائد کر رہا ہے۔ دوسری جانب یورپی یونین کی صدر ارسولا وان لیین نے کہا کہ یورپی یونین اب امریکہ کے خلاف اپنے محصولات کا ایک پیکیج تیار کر رہی ہے جسے جلد نافذ کردیا جائے گا۔ ٹرمپ کی جانب سے نافذ کیے گئے نئے ٹیرف کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی تجارتی نظام، جس کے تحت پوری دنیا ایک فری ٹریڈ ایریا میں تبدیل ہونے کی جانب رواں دواں تھی، ٹرمپ کے اس ایک اقدام سے زمین بوس ہوتا نظر آرہا ہے اور دنیا ایک نئی تجارتی جنگ میں داخل ہورہی ہے جس کے دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here