امام محمد باقرۖ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا میرے والد علی بن حسین ہر رات اور دن میں ہزار رکعت نماز پڑھتے تھے جیسا کہ امیرالمومنین بھی ایسے ہی تھے اور میرے والد کے پانچ سو درخت تھے۔ ہر درخت کے پاس آپ دو رکعت نماز پڑھتے تھے اور جب آپ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے تو آپ کا رنگ متغیر ہوجاتا اور آپ کی حالت خدا کے حضور میں ایک ذلیل بندے جیسی ہوتی تھی اور آپ کے اعضاء وجوارح خوف خدا سے لرزتے تھے نیز آپ ایسے نماز پڑھا کرتے تھے جیسے کوئی وداع کر رہا ہو گویا اس کے بعد آپ کبھی نماز نہیں پڑھ سکیں گے۔
ایک روز آپ نماز پڑھ رہے تھے کہ آپ کے ایک کاندھے سے ردا سرک گئی تو آپ نے اس درست نہیں کیا یہاں تک کہ نماز سے فارغ ہو گئے تو آپ کے ایک صحابی نے اس کے متعلق پوچھا لہٰذا آپ نے فرمایا خدا تجھ پر رحم کرے کیا تم جانتے ہو کہ میں کس کے سامنے کھڑا تھا بندہ کی کوئی نماز قبول نہیں ہوتی مگر صرف وہ نماز جسے اس نے حضور قلبی کے ساتھ ادا کیا ہو اس شخص نے کہا ہم تو ہلاک ہوگئے آپ نے فرمایا ایسا ہرگز نہیں اس لیے کہ اللہ نوافل کے ذریعہ سے اس کمی کو پورا کردیتا ہے۔ نیز آپ رات کے سخت اندھیرے میں نکل پڑھتے تھے آپ تھیلے اپنے کندھوں پر اٹھاتے تھے کہ جن میں دینارو درہم کی تھیلیاں ہوتیں تھیں جبکہ کبھی کبھار آپ اپنی پیٹھ پر کھانا اور لکڑیاں اٹھا کر جاتے تھے یہاں تک کہ ہر دروازے پر دستک دیتے اور جو باہر نکلتا اس کے ہاتھ میں دے دیتے تھے۔ اس حالت میں کہ جب کسی فقیر کو دیتے تو آپ کا چہر ڈھکا ہوتا تھا تاکہ وہ آپ کو پہچان نہ لے مگر جب آپ شہید ہوئے تو لوگوں تک یہ چیزیں نہ پہنچ سکیں اور اس طرح وہ لوگ سمجھ گئے کہ یہ امام زین العابدین ہی تھے۔ جب آپ کو غسل دینے کے لیے تختہ پر لٹایا گیا تو ان لوگوں نے اونٹ کے زانو پر پڑے گٹھوں کی مانند آپ کی پیٹھ پر بھی گٹھے دیکھے جو غرباء ومساکین کے گھروں تک سامان لادنے کی وجہ سے پڑ گئے تھے۔ ایک مرتبہ آپ گھر سے اس حالت میں نکلے کہ آپ پر ایک خزکی چادر تھی ایک سائل آکر آپ کی چادر سے لپٹ گیا لہذا آپ اس چادر کو وہیں چھوڑ کر آگے بڑھ گئے۔ آپ سردی کے موسم میں خز خرید کرتے اور جب گرمی کا موسم آتا تو آپ اسے فروخت کردیتے اور اس کی قیمت کو صدفہ کردیتے تھے۔ آپ نے عرفہ کے دن ایک جماعت کو لوگں سے مانگتے ہوئے دیکھا تو آپ نے فرمایا خدا تم پر رحم کرے کیا اس جیسے دن غیر خدا سے مانگتے ہو جبکہ اس دن تو یہ اُمید کی جاتی ہے ہے کہ رحم مادر میں جو بچے ہیں وہ سعادت مند ہوں گے۔ آپ اپنی منہ بولی والدہ کے ساتھ کھانا کھانے سے دریغ فرماتے تھے آپ سے پوچھا گیا کہ اے فرزند رسولۖ آپ تو سب سے زیادہ نیکو کار اور صلہ رحمی کرتے ہیں۔ تو پھر آپ اپنی منہ بولی والدہ کے ساتھ کھانا تناول کیوں نہیں کرتے تو فرمایا کہ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میرا ہاتھ اس چیز کی طرف بڑھے جس چیز کی طرف میری منہ بولی والدہ کی نظر گئی ہو۔ آپ سے ایک شخص نے کہا میں اللہ کی خاطر آپ سے سخت محبت کرتا ہوں تو فرمایا اے میرے اللہ میں اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ مجھ سے تیری خاطر محبت کی جائے جبکہ تو مجھ سے نفرت کرتا ہو۔ آپ نے ناقہ پر سوار ہو کر بیس حج کئے مگر آپ نے ایک بار بھی اسے چابک نہیں ماری اور جب وہ اونٹنی مر گئی تو آپ نے اسے دفن کرنے کا حکم دیا تاکہ اسے درندے نہ کھا جائیں۔ آپ کے بارے میں آپ کی ایک کنیز سے پوچھا گیا تو اس نے کہا بات کو طول دوں یا کلام مختصر کروں؟ اس سے کہا گیا مختصراً بیان کرو لہذا اس نے کہا میں کبھی دن میں ان کے لیے کھانا لے گئی اور نہ ہی رات میں کبھی ان کے لیے بستر لگا۔ ایک دفعہ آپ کا گزر کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا جو آپ کو برا بھلا کہہ رہے تھے تو آپ وہاں کھڑے ہوگئے اور فرمایا اگر تم سچ کہہ رہ ہو تو اللہ میری مغفرت کرے اور اگر تم لوگ جھوٹ کہہ رہے ہو تو خدا تمہاری مغفرت کرے۔ جب کبھی آپ کے پاس کوئی طالبعلم آتا تو آپ فرماتے رسولۖ خدا کی وصیت کو خوش آمدید: اس کے بعد فرماتے جب کوئی طالبعلم اپنے گھر سے نکلتا ہے تو جس خشک وتر پر قدم رکھتا ہے وہ زمین اپنے سات طبقوں سمیت اس کے لیے تسبیح کرتی ہے۔ آپ مدینہ کے سو غریب گھرانوں کی کفالت کرتے تھے۔ آپ کو یتیموں نابینائوں زمین گیروں اور مسکینوں تک کہ جن کا کہیں سے کوئی آسرا تمہیں ہوتا کھانا پہنچانا بہت پسند تھا۔ نیز آپ اپنے دست مبارک سے ان کو دیتے اور جن کے اہل وعیال ہوتے تھے تو ان کے اہل وعیال تک کھانا پہنچاتے تھے۔ آپ اس وقت تک کھانا شروع نہ کرتے جب تک کہ اس طرح صدقہ نہ کردیتے آپ کے کثرت سے نماز پڑھنے کی وجہ سے ہر سال آپ کے سجدہ کرنے کے مقام سے سات گھٹے کاٹے جاتے آپ انہیں اکٹھا کرتے اور جب آپ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو انہیں آپ کے ہمراہ دفن کردیا گیا۔ آپ نے پینتیس سال اپنے والد بزرگوار امام حسین پر گر یہ کیا جب بھی آپ کے سامنے کھانا پیش کیا جاتا تو گر یہ کرنے لگتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ کے ایک غلام نے آپ سے کہا اے فرزند رسولۖ خدا کیا اب تک آپ کے گریہ کرنے کا وقت ختم نہیں ہوا۔ تو آپ نے فرمایا خدا تم پر رحم کرے حضرت یعقوب کے بارہ بیٹے تھے اور خدا نے ان سے صرف ایک بیٹے کو غائب کیا تھا تب بھی گریہ کی وجہ سے ان کی بصارت زائل ہوگئی تھی اور غم واندوہ کی وجہ سے ان کے سر کے بال سفید ہوگئے تھے اور اس غم میں ان کی کمر جھک گئی تھی۔ حالانکہ ان کا بیٹا تو دنیا میں زندہ موجود تھا جبکہ میں نے اپنے والد اپنے بھائی اپنے چچا اور سترہ اہل خاندان کو اپنے اردگرد مقتول دیکھا ہے تو میرا حزن بھلا کس طرح ختم ہوسکتا ہے۔
٭٭٭٭