ٹرمپ کیخلاف فرد جرم عائد ہونے پر خانہ جنگی کا خدشہ

0
88

نیویارک (پاکستان نیوز) ایف بی آئی سمیت سیکیورٹی اداروں نے سابق صدر ٹرمپ کے گھر پر چھاپے کے بعد ان کے خلاف تحقیقات کا گھیرا مزید تنگ کر دیا ہے جس سے ٹرمپ کے حامیوں میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے، غالب امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ٹرمپ پر غیر آئینی اقدامات کی پاداش میں فرد جرم عائد کی جائے گی جس پر ان کو سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ، اس باز گشت کے بعد ٹرمپ کے حامیوں نے سابق صدر کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارنے والے ایف بی آئی ایجنٹس کو قتل کی دھمکیاں دینا شروع کر دی ہیں جبکہ سوشل میڈیا پر ٹرمپ کی حمایت میں مختلف گروپس بھی متحرک ہوگئے ہیں جوکہ کارکنوں ، سپورٹرز کو اس اقدام کیخلاف انتہائی قدم اٹھانے کے لیے قائل کر رہے ہیں ، اس حوالے سے سوشل میڈیا پر مختلف ویڈیوز بھی وائرل ہیں ، لیکن ایک سوال یہ بھی پیدا ہو رہا ہے کہ کیا ملک میں انارکی اور خانہ جنگی کے خطرات کے پیش نظر ٹرمپ کیخلاف تحقیقات کو روکا جا سکتا ہے،کیا اس تشدد کے خدشے کے پیش نظر ٹرمپ کیخلاف قانونی کارروائی روک دی جائے گی ، یہ بہت اہم سوالات ہیں جس کے جواب میں کنزرویٹو مصنف اینڈریو میکارتھی نے نیشنل ریویو کو دیئے گئے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ سابق صدر ٹرمپ پر فرد جرم عائد ہونے کے قوی امکانات ہیں، انہیں بہت سنجیدہ الزامات کا سامنا ہے، دیگر سیاسی پنڈتوں ، تجزیہ کاروں نے بھی اس بات کی حمایت کی ہے کہ ٹرمپ کیخلاف تحقیقات سنجیدہ الزامات پر ہوں گی ، تجزیہ کار بریڈ موس نے ڈیلی بیسٹ میں اپنے آرٹیکل میں لکھا کہ ٹرمپ کی گیم اوور ہو چکی ہے، ان کیخلاف تحقیقات لازمی عمل میں آئیں گی ،کیونکہ ٹرمپ نے ملکی دفاع سے متعلق حساس معلومات اپنے گھر میں چھپا کر رکھیں، جبکہ حکومتی سطح پر وہ ایسا کرنے کا قانونی جواز نہیں رکھتے تھے، تجزیہ کار میتھیو کوپر نے بھی واشنگٹن منتھلی میں اپنے مضمون میں لکھا کہ ٹرمپ پر فرد جرم کا عائد کیے جانا لازمی ہوگیا ہے، تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ٹرمپ کیخلاف کارروائی کی روک تھام کے لیے ان کے حامیوں نے جارحانہ اقدام اپنانا شروع کر دیے ہیں ، ایف بی آئی ایجنٹس کو قتل کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں، نیوز میکس کے پروگرام میں ملک میں خانہ جنگی کے خدشے پر سوال کے جواب میں سابق قائم مقام اٹارنی جنرل میتھیو وائٹ ٹیکر نے خدشہ ظاہر کیا کہ ان اقدامات سے ملک میں فساد اور خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے ، سڑکو ں پر لوگ غیر محفوظ ہو جائیں گے ، اس خدشے کا اظہار خود ڈونلڈ ٹرمپ بھی کرچکے ہیں کہ ان کیخلاف کسی قسم کا جارحانہ اقدام ملک کو بڑے خطرے سے دوچار کر سکتا ہے ، واضح رہے کہ امریکا کے محکمہ انصاف نے تصدیق کی ہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی رہائش گاہ کی تلاشی کے دوران ایف بی آئی نے 20 بکسوں پر مشتمل خفیہ دستاویزات کے 11 سیٹ قبضے میں لیے ہیں۔محکمہ انصاف کے مطابق سابق صدر سے جاسوسی ایکٹ کی خلاف ورزی سمیت دیگر جرائم کے تحت تحقیقات کی جا رہی ہیں۔وارنٹ کے مطابق سابق صدر سے جاسوسی ایکٹ کی خلاف ورزی، انصاف کی راہ میں حائل ہونے اور اہم دستاویزات کو سنبھالنے میں مجرمانہ غفلت کے شبہ میں تحقیقات کی جار ہی ہیں تاہم اس جرم کے تحت کسی پر کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا ہے۔یہ چھاپہ اس تفتیشی کارروائی کا حصہ تھا جس میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ سابق صدر جنوری 2021 میں اپنا عہدہ چھوڑنے کے بعد وائٹ ہاؤس سے جاتے ہوئے جوہری ہتھیاروں کی معلومات کے علاوہ کچھ حساس نوعیت کا ریکارڈ اپنے ساتھ لے گئے تھے۔وارنٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سابق صدر کی رہائش گاہ پر چھاپے کے دوران ایف بی آئی نے دستاویزات کے 20 سے زائد ڈبے ضبط کر لیے ہیں۔ ان میں سے کچھ ڈبوں پر ‘ٹاپ سیکریٹ’، ‘سیکریٹ’ اور ‘کانفیڈینشل’ لکھا ہوا ہے۔ کچھ مواد پر ‘پوٹینشل پریذیڈینشل سیکریٹ’، ‘متفرق خفیہ دستاویزات،’ لکھا ہوا ہے جن میں ہاتھ سے لکھے ہوئے کچھ نوٹس اور تصاویر بھی شامل ہیں۔وارنٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایف بی آئی کے چھاپے کے دوران ٹرمپ کی رہائش گاہ میں اْن کے دفتر، اسٹور رومز اور وہ تمام کمرے جو ٹرمپ یا اْن کے اسٹاف کے زیرِ استعمال ہیں کی تلاشی لی گئی۔ٹرمپ کی رہائش گاہ پر چھاپے کے وارنٹ کی اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ نے خود منظوری دی تھی، اْنہوں نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا تھا کہ محکمہ انصاف ایسے فیصلے کو آسان نہیں سمجھتا۔ بلکہ کوشش کرتا ہے کہ بغیر کسی ناخوش گوار واقعے کے تلاش کے ایسے متبادل ذرائع استعمال کرتا ہے جس کے ذریعے صرف اْن جگہوں کی تلاشی لی جائے، جہاں سے مطلوبہ مواد ملنے کی اْمید ہو۔امریکہ میں جاسوسی ایکٹ 1917 حساس مواد کی تصاویر لینے، اہم معلومات کی نقل کرنے اور امریکی دفاع سے متعلق حساس معلومات کے ذریعے امریکہ کو نقصان پہنچانے یا کسی دوسرے ملک کے فائدے کے لیے استعمال کرنے سے روکتا ہے،یہ ایکٹ جاسوسی کے علاوہ حساس معلومات کو سنبھالنے میں غیر محتاط یا غیر ذمے دارانہ رویہ اختیار کرنے پر بھی لاگو ہو سکتا ہے۔ٹرمپ نے اپنی رہائش گاہ پر چھاپے کے بعد سخت ردِعمل دیتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ سابق صدر براک اوباما آفس چھوڑتے ہوئے اپنے ساتھ حساس دستاویزات لے گئے تھے۔ایک بیان میں سابق صدر کا کہنا تھا کہ سابق صدر اوباما اپنے ساتھ 33 ملین صفحات پر مشتمل کلاسیفائیڈ دستاویزات لے گئے تھے، ان میں سے کتنی جوہری ہتھیاروں سے متعلق تھیں؟ جواب یہ ہے کہ ‘بہت سی’۔امریکی نیشنل آرکائیو نے سابق صدر ٹرمپ کے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے فوری بیان جاری کیا کہ اوباما کے آفس چھوڑتے ہی تمام حساس نوعیت کی دستاویزات قبضے میں لے لی گئی تھیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here