قسطوں میں خودکشی کا مزہ ہم سے پوچھئے!!!

0
8

گزشتہ کئی ماہ سے، دنیا کے حالات کچھ ایسے رہے ہیں کہ میرے ہفتہ وار کالمز، سنجیدہ سے سنجیدہ ہوتے گئے ورنہ اس سے پہلے، مزاح کا ایک پہلو، ہر کالم میں ضرور شامل ہو جایا کرتا تھا، یہ تو بھلا ہو ہمارے بچوں کا کہ وہ زبردستی ہمیں، چند دن قبل سیر کیلئے کینیڈا لے گئے۔ نیو جرسی کی شدید سردی سے اٹھ کر، ٹورنٹو کی مزید شدید سردی میں تین چار دن گزارنا، لگتا تو بہت عجیب ہے لیکن بہرحال بچوں کی خوشی کیلئے والدین کو ساری عمر کچھ نہ کچھ قربانی تو دینا ہی پڑ تی ہے۔ اسی لئے ہم بھی ٹھٹھرتے اور کپکپاتے، ٹورنٹو کے نواحی شہر، مسی ساگا پہنچ گئے۔ یہ شہر بیگم پورہ کے نام سے بھی مشہور ہے کیونکہ مشرقِ وسطیٰ میں کام کیلئے جانے والے پاک و ہند کے لوگ اپنے بیوی بچوں کو یہاں بسا کر خود اپنا جاب، مشرقِ وسطیٰ کے مختلف علاقوں میں جاری رکھتے ہیں۔اس مرتبہ کینیڈا کے اس بیگم پورہ میں ہمارا جانا کافی عرصے بعد ہوا۔ پہنچتے ہی بے اختیار علامہ اقبال کا یہ شعر لبوں پہ جاری ہوگیا کہ!
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
یوں لگا کہ جیسے ہم پاکستان پہنچ آگئے ہیں یہاں کی سڑکیں اور گلیاں تو اسلام آباد سے مماثلت رکھتی ہیں اور ریسٹورانٹس اور ان میں پکنے والے کھانے لاہور کی یاد دلاتے ہیں۔ خالص دیسی سے لیکر خالص امریکی ڈشوں کے ساتھ ساتھ Fusion زدہ کھانے بھی لاجواب ہیں۔ عربی، افریقی، ترک اور چائنیز کھانوں کی بے انتہا لذتِ نے کام و دہن کے لطف کو بلا شبہ دوبالا کردیا اور ہمارے کینیڈا وزٹ کے پیسے پورے کردئیے۔پیسے پورے ہوئے تو ایک حیرت انگیز بونس بھی نصیب ہوا۔ سال کا وہ دن، جسے ہم اکثر بھول جاتے ہیں، بچوں نے ایک زبردست دھماکے سے وہ ہمیں یاد کرا دیا۔ ہمارے چھوٹے بیٹے بلال نے اس سارے ٹرپ پر اصرار، دراصل ہماری شادی کی سالگرہ منانے کیلئے کیا تھا۔ اس نے پہلے اپنے بھائی، بہن، بھابھی اور بہنوئی کو راضی کیا اور پھر خوب ضد کرکے ہمیں بھی منا لیا۔چار جنوری کو ہماری شادی کی عمر سال ہو گئی۔ پچھلے سال ہم نے تیسویں سالگرہ اسلام آباد میں منائی تھی۔ اس سال مسسی ساگا کا شہر بھی اسلام آباد سے کچھ کم نہیں نکلا۔ تازہ پھلوں اور خوبصورت پھولوں سے لیکر حلیم و نہاری تک، سب کچھ دستیاب تھا۔زندگی کے اکتیس سال، شریکِ حیات کے ساتھ گزارنا کتنا مشکل کام ہے، اس کا اندازہ صرف وہی لوگ لگا سکتے ہیں جنہوں نے اتنے طویل عرصے کی رفاقت کی ہو۔ غزل کے شعرا میں میرے پسندیدہ ترین خمار بارہ بنکوی ہیں۔ ان کے یہ چند مشہور اشعار دیکھئے، میرا پیغام آپ تک پہنچا جائے گا۔
اک پل میں اک صدی کا مزا ہم سے پوچھئے
دو دن کی زندگی کا مزا ہم سے پوچھئے
بھولے ہیں رفتہ رفتہ انہیں مدتوں میں ہم
قسطوں میں خودکشی کا مزا ہم سے پوچھئے
آغاز عاشقی کا مزا آپ جانئے
انجام عاشقی کا مزا ہم سے پوچھئے
ہنسنے کا شوق ہم کو بھی تھا آپ کی طرح
ہنسئے مگر ہنسی کا مزا ہم سے پوچھئے
ہماری گودوں میں پلتے ہوئے، ایک طویل مدت کے رشتہ ازدواج کے نشیب و فراز کو ہمارے بچے بھی کسی حد تک سمجھتے ہیں۔ اِس چار جنوری کو ہم نے ان کو اپنے کچھ مزید تجربات سے بھی آگاہ کیا۔ نسل در نسل منتقل ہونے والی روایات کی بڑی اہمیت ہوتی ہے جن لوگوں کو یہ سیکھنے کے مواقع میسر آجائیں، وہ واقعی خوش قسمت ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری شادی شدہ زندگی میں نشیب زیادہ اور فراز کم ہیں لیکن پھر بھی ہم اپنے رب تعالیٰ کے بیحد شکرگزار ہیں۔ اس سلسلے میں غالب کا یہ شعر بھی کافی مدد کرتا ہے۔ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونقیں، غم ہی سہی نغمہ شادی نہ سہی،امریکہ میں رہتے ہوئے ہمیں مولانا یوسف اصلاحی (مرحوم)کی میزبانی کا شرف حاصل رہا۔ اس سعادت کے حاصل ہونے کی وجہ سے ہماری زندگی مزید آسان ہوگئی۔ ان کی دی ہوئی ہدایات تو انکے اپنے قران و حدیث کے گہرے مطالعہ کا نچوڑ ہوتی تھیں۔ زندگی کی اونچ نیچ میں انہوں نے ہمیشہ ہماری رہنمائی فرمائی اور اسی کی نتیجے میں ہم دونوں اپنے تین بچوں کی اچھی تربیت کر پائے۔ الحمدللہ ۔
ایں سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشند
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here