تجارتی جنگ اور ٹرمپ کا جارحانہ انداز!!!

0
43
شمیم سیّد
شمیم سیّد

دوسری بار صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد صدر ٹرمپ کا رویہ جارحانہ نظر آرہا ہے جو مستقبل قریب میں ایک نئی تجارتی جنگ کا رُخ اختیار کرتا نظر آرہا ہے۔ ٹرمپ کا ہدف یہ ہے کہ امریکہ میں فیکٹریاں قائم ہوں اور وہاں کے لوگوں کے لیے روزگار میسر ہو۔ بظاہر تو امریکی صدر کی یہ جارحانہ پالیسی امریکہ کے حق میں ہے لیکن یہ سب کس حد تک قابل عمل ہیں یہ ایک الگ سوال ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ اس قسم کی ایک ناکام کوشش 2018 میں بھی کر چکا ہے لیکن اسوقت اسکا واحد حدف چین تھا۔ پچھلے صدر سمیت موجودہ امریکی صدر کی بڑی خواہش یہ ہے کہ مشہو ر زمانہ کمپنی ایپل کے فون اور مصنوعات امریکہ میں تیار ہوں۔ اگر ایسا ہو جائے تو یہ اس تجارتی جنگ میں کم از کم امریکہ کی ایک علامتی فتح ضرور ہوگی۔مسڑ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کئے گئے وعدوں کے مطابق ، اپریل کو دنیا کے قریب قریب تمام ممالک سے ہونے والی درآمدات پر مزید ٹیرف عائد کر دیئے ہیں ۔ ان کی شرح ہر ملک کے لیے مختلف اور اس بات پر منحصر ہے کہ کس ملک کے ساتھ تجارت میں امریکہ کو کتنا تجارتی خسارہ ہو رہا ہے۔ اس ٹرمپ ٹیرف کا اعلان کرنے والے دن کو مسٹر ٹرمپ نے امریکہ کے لیے تجارتی یوم آزادی قرار دیا۔ دوسری جانب امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات آجکل سرد سہی لیکن زیادہ پرانی بات نہیں جب امریکہ پاکستان کو اپنے حلیفوں کی فہرست میں پہلے دوسرے نمبر پر لکھتا تھا۔ دوسری جانب چین سے ہماری قربت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اس لیے ہماری یہ کوشش بھی ہونی چاہئے کہ ہم چین اور امریکہ کے درمیان سفارتکاری کے ذریعے سے اس اقتصادی جنگ کی آگ کو ٹھندا کرنے کی کوشش کریں اور ساتھ ساتھ اس جنگ کے اپنے اوپر آنے والے اثرات میں بھی زیادہ سے زیادہ کمی لانے کی کوشش کریں۔ یہ نا ممکن نہیں اور ہم اس قسم کا کردار پہلے بھی ادا کر چکے ہیں جب پاکستان کی کوششوں ا ور مدد سے 9 جولائی 1971 کو اس وقت کے امریکی سیکٹری آف سٹیٹ ہنری کسنجر نے پاکستان ائیرلاین کے جہاز پر ، براستہ پاکستان چین کا خفیہ دورہ کیا تھا جس کی وجہ سے امریکہ اور چین کے درمیان سرد مہری کی برف پگھلی تھی۔ ان سب اقدامات سے مسٹر لیکن عملی طور پر اس خواب کا شرمندہ تعبیر ہونا بہت مشکل ہے کیونکہ ایک تو امریکہ میں لیبر بہت مہنگی ہے۔ دوسرا ایپل نامی کمپنی اپنی مصنوعات کے پرزوں کی اکثریت خود تیار کرنے کی بجائے انہیں مختلف عالمی کمپنیوں سے خرید کر اسیمبل کرتی ہے۔ یہ اسمبلی امریکہ میں شروع کرنے کے لیے بھی انہیں اپنی مصنوعات کے پرزہ جات دوسرے ممالک سے درآمد کرنے پڑیں گے اور اس درآمد پر نئے ٹیرف کا اطلاق ہو گا۔ مسٹر ٹرمپ کی جانب سے نئے ٹیرف کے اعلان کے ساتھ ہی جہاں دنیا بھر کی سٹاک مارکیٹوں میں بھونچال آ گیا اور کئی اسٹاک مارکٹیں بیس فیصد تک گر گئیں وہاں اس کے اثرات پاکستان میں بھی دیکھے گئے لیکن پاکستان میں یہ مندا پانچ فیصد تک محدود رہا۔ اسکی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی امریکہ کو برآمدات ہمارے GDP کا صرف ایک سے دو فیصد ہے۔ خیر پہلے کہا گیا کہ نئے ٹیریف کا اطلاق 9 اپریل سے ہو گا، لیکن پھر مسٹر ٹرمپ نے بشمول پاکستان بہت سے ممالک (چین کو چھوڑ کر) اس ٹیرف کو 90 دن کے لیے مؤخر کر دیا ۔ امریکہ کی اس اقتصادی جنگ کا بنیادی حدف چین ہے اور چین کی مصنوعات پر امریکہ 125% سے زیادہ ٹیرف عائد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ابھی اتوار کی تازہ خبر ہے کہ امریکی صدر نے کمپیوٹر اور موبائل کے پرزو ں کو بھی اس ٹیرف سے مستشنی قرار دے دیا ہے۔ خیر ہمارے لیے بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ ٹیرف ابھی لگے یا نوے دن بعد، اس کے پاکستان اور پاکستان کی معیشت پر کیا اثرات ہونگے۔ عام خیال تو یہی ہے کہ پاکستان کی امریکہ کو برآمدات میں کمی متوقع ہے۔ ہماری حکومت اس سب پر نظر رکھے ہوئے ہے اور اس سلسلے میں ایک وفد امریکہ بھیجنے کا بھی ارادہ رکھتی ہے جو بات چیت کے ذریعے سے پاکستانی مصنوعات پر عائد ٹیرف کم کروانے کی کوشش کرے۔ یاد رہے کہ پاکستانی مصنوعات پر دس فیصد کا بنیادی ٹیرف تو پہلے ہی عائد تھا اب اس میں 29% فیصد کا اضافہ ہو جائے گا۔ پاکستان سے زیادہ تر ٹیکسٹائل مصنوعات امریکہ جاتی ہیں جس کے لیے ہمارا مقابلہ زیادہ تر چین، بنگلہ دیش ، بھارت اور ویتنام سے ہوتا ہے۔ بھارت پر ٹیرف26% عائد ہوا ہے لیکن بھارت کی برآمدات میں مختلف مصنوعات جیسے کہ ادویات اور سافٹ وئیر وغیرہ شامل ہیں اور ٹیکسٹائل کا حصہ کم ہے۔ بنگلہ دیش کی زیادہ تر برآمدات ٹیکسٹائل پر مشتمل ہیں اور بنگلہ دیش پر 37% اور ویتنام پر 46% ٹیرف عائد ہوا ہے (پاکستان کے مقابلے میں کافی زیادہ)۔ یعنی عملی طور پر پاکستانی مصنوعات امریکہ میں مہنگی تو ہو جائیں گی لیکن بنگلہ دیش اور ویتنام کی مصنوعات اس کے مقابلے میں بہت زیادہ مہنگی ہو جائیں گی۔ اگر ہم یہ ٹیرف مزید کچھ کم کروانے میں کامیاب ہو جائیں اور دوسرا اپنے ملک میں ٹیکسٹائل کی مصنوعات کی پیداواری لاگت میں کمی لانے کی کوشش کریں تو ٹرمپ کے یہ اقدامات عملی طور پر نقصان کی بجائے ہمارے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے اہم توانائی اور خاص طور پر بجلی ہے۔ حال ہی میں حکومت نے بجلی کے نرخوں میں خاطر خواہ کمی کی ہے ۔ ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ بجلی کی قیمت میں ( خاص طور پر صنعتوں کے لیے) مزید کمی کی جائے تاکہ ہماری پیداواری لاگت میں خاطر خواہ کمی ہو۔ اس سب صورتحال سے پاکستان کو ایک اور طریقے سے بھی فائدہ مل سکتا ہے یا ہمیں یہ فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش ضرور کرنی چاہئے۔ چین پر تو 125% یا اس سے بھی زائد ٹیرف عائد ہونا ہی ہے ایسے میں ہم چین کے صنعت کاروں کو یہ ترغیب دے سکتے ہیں کہ وہ اپنی فیکٹریاں پاکستان منتقل کر کے اپنی مصنوعات کی تیاری پاکستان میں شروع کریں۔ ان فیکٹریوں کی مصنوعات پاکستان سے برآمد ہونگی تو چین کے صنعتکار چین پر عائد بھاری ٹیرف سے بچ جائیں گے، پاکستان میں سرمایہ کاری بھی ہو گی اور بیروزگاری میں کمی ہونے کے ساتھ ساتھ زر مبادلہ بھی آئے گا۔ علاوہ ازیں امریکہ کو پاکستانی برآمدات کا قریب قریب 80 فیصد ٹیکسٹائل مصنوعات ہیں۔ ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ صرف ایک ٹیکسٹائل پر انحصار کرنے کی بجائے مزید مصنوعات بھی برآمدات میں شامل ہوں۔ امریکہ کی یہ تجارتی جنگ قریب قریب تمام دنیا کے خلاف ہے جس میں یورپ اور کینیڈا وغیرہ بھی شامل ہیں۔ جہاں چین کے ساتھ ساتھ یورپ اور کینیڈا جیسی اقتصادی طاقتیں امریکہ کے خلاف جوابی اقدامات کی تیاری کر رہی ہیں ، پاکستان کو اس سلسلے میں صبر اور سمجھداری سے کام لینے ضرورت ہے کیونکہ ایک تو امریکہ کی اس جارہانہ اقتصادی پالیسی کا بنیادی حدف پاکستان ہے ہی نہیں اور دوسرا امریکہ کو کہیںنہ کہیں یہ خیال بھی ہو گا کہ پاکستان اور اس جیسے دوسرے ممالک پر اگر بہت زیادہ دبائو پڑا تو وہ بالکل ہی چین کے کیمپ میں نہ چلے جائیں۔ پاکستان کے تو چین سے پہلے ہی بہت دیرینہ اور دوستانہ تعلقات ہیں۔ ایسی صورتحال میں ا مریکہ پاکستان پر ایک حد سے زیادہ دبائو نہیں ڈالنا چاہے گا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here