جب تک ہمارا کالم اخبار میں شائع ہوگا امریکہ کے شہریوں کو معلوم ہوچکا ہوگا کہ امریکہ کا٤٧واں صدر کون بنا ہے۔ اس دفعہ کے انتخاب میں کوئی اچھا انتخاب نہ تھا جلدی میں صدر بائیڈین کو صدر ٹرمپ کے سامنے لاکھڑا کیا اور وہ بوکھلا گئے۔ بری طرح مار کھائی اور ٹرمپ کے جیتنے کے امکانات روشن ہوگئے لیکن ڈیموکریٹ نے جو امریکہ کی پرانی سیاسی پارٹی ہے نے سوچا کہ یہ کیسے ممکن ہے۔ بڑے بڑے کارپوریشن کےCEOSنے لاکھوں ڈالر کمالہ ہیرس کی جھولی میں ڈالے تاکہ وہ اپنی بے معنی ہنسی سے عام امریکن کو اپنا بنائیں اور ساتھ ہی جھوٹے پول آنا شروع ہوگئے کہ ہر پول میں کمالہ ہیرس، ٹرمپ سے آگے تھی۔ پڑھے لکھے امریکن دیکھ رہے تھے کہ امریکی انتخابات کو خریدا جارہا ہے اور زبردستی کمالہ ہیرس کو امریکہ کا صدر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کمالہ ہیرس بڑے یقین سے اسٹیج پر آتیں ان کے پاس کہنے کو کچھ نہ ہوتا کہ پچھلے ساڑھے تین سال میں وہ نہ ہونے کے برابر تھیں سوائے ٹرمپ کو برا بھلا کہتیں گھوڑے کی طرح منہ پھاڑ کر ہنستیں بے بات جیسے انہوں نے بڑے کارنامے انجام دیئے ہیں اُن کے کارناموں میں اوپن بارڈر پالیسی قابل ذکر ہے جو امریکہ کے لئے تاریخ کی سب سے بڑی بدنامی ہے کہ کسی ملک میں ایسا نہیں ہوتا پھر ان غیر قانونی آنے والوں کو وہ ہر شہر میں پھیلاتی گئیں اور جو شہر ڈیموکریٹ کے ہاتھ میں تھے وہاں انکو پناہ دی گئی نیویارک خاص طور پر ان کی رہائش بنا جس سے وہاں رہنے والے تنگ اور عاجز آگئے اگر اس بات پر رہیں کہ امریکہ ہجرت کرنے والوں کا ملک ہے تو یہ بھی غلط تھا کہ قانون کے ہوتے ہوئے ڈیموکریٹ نے بارڈر کھول کر انہیں آنے دیا۔ اس بات کو ٹرمپ نے اپنے الیکشن کی تحریک بنایا لیکن کمالہ خاموش جگہ جگہ منہ پھاڑ پھاڑ کر ہنستی رہی۔ صحافیوں کے سوالوں کا جواب اُن کے پاس نہ تھا۔ وہ جواب دیتے ہوئے الٹی سیدھی باتیں کرتی رہیں۔ اور ایک ناکارہ امیدوار ثابت ہوئیں۔ اخبارات نے جن کی اب کوئی اہمیت نہیں۔ دونوں میں سے کسی بھی امیدوار کو نہیں چنا۔ خاص کرAMAZONکے جیف بیزو نے دونوں میں سے کسی کا چنائو نہیں کیا۔ ہر چند کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمیشہ سے ہی امریکن اور اخبارات کی پسند عرصہ سے مختلف رہی ہے۔ سوشل میڈیا اپنے اپنے چینل پر خبریں دیتا رہا۔ کسی نے لیڈ لگائی ٹرمپ اور ہیرس دوبدو حالانکہ دونوں کا کوئی مقابلہ نہ تھا یہ پورا امریکہ جانتا ہے نائب صدر با صدر بننے کے لئے ان کے(کمالہ) کے پاس کوئی قابلیت نہ تھی اور امریکن کو اپنی بات منوانے کے لئے بھی کچھ نہ تھا۔ سوائے اسٹیج پر جا کر قہقہے لگانے کے۔ یہ تماشا سارے امریکن نے دیکھا اور دیکھ رہے ہیں اور اگر وہ صدر بن بھی گئیں تو کچھ نہ کر پائینگی۔ ان میں بین الاقوامی مسائل حل کرنے کی کوئی قابلیت نہیں شخصیت بھی ایسی نہیں ہے۔ لیکن تھوڑی دیر کے لئے فرض کرلیں کہ قسمت نے انکا انتخاب کرلیا تو امریکہ بڑی مشکلات میں جائے گا۔ کہ معیشت پر یہاں کی بڑی بڑی کارپوریش نے قبضہ کر رکھا ہے اور وہ امریکی قوت خرید کر کمزور سے کمزور تر کر چکی ہیں کسی چیز پر کنٹرول نہیں۔ ہر چیز ہر بزنس کو کھلے عام چھٹی ہے کہ وہ من مانی کرے۔امریکہ کو درپیش مسائل پر دونوں کہاں کھڑے ہیں امریکن جان چکے ہیں کہ کمالہ ہیرس کنٹرول نہیں کرپائینگی۔ سب سے پہلا مسئلہ غازہ میں جو تباہی اسرائیل نے مچائی ہے اس پر کمالہ خاموش ہے اور قہقہہ لگا رہی ہی اس کا اعتبار کرنا ایسا ہی ہے جیسے کسی چھوٹے پر بھروسہ کرنا۔ البتہ ڈونلڈ ٹرمپ بار بار کہہ رہا ہے کوئی جنگ نہیں ہوگی اس میں سچائی ہے وہ دنیا بھر کے لیڈروں کو جانتا ہے اور کہیں کہیں اپنی طاقت کا مظاہرہ کر چکا ہے۔ اور امید کی جاتی ہے امریکہ جنگیں رکوانے میں کامیاب ہوگا۔ اس وقت مقبالہ٧ بڑی ریاستوں میں ہے جہاں کے الیکٹوریل ووٹوں سے دونوں میں سے کوئی صدر بنے گا پاپولر ووٹ جو عام امریکن ڈالتا ہے اس کے آگے کوئی اہمیت نہیں رہے گی اور یہ مذاق ہے جسے ہر بار تبدیل کرنے کا سوچا جاتا ہے اور وہ نہیں ہو باتا یہ الیکٹوریل ووٹ کانگریس اور سینیٹ ہو ہوتے ہیں اور جو بھی270ووٹ لے لیتا ہے وہ صدر بن جاتا ہے۔ اس سے پہلے جارج بش اور ٹرمپ بھھی ان ہی ووٹوں پر صدر بنے تھے اس دفعہ امکان ہے صدر ٹرمپ دونوں ووٹ اکثریت سے لے سکیں گے۔الیکشن میں کمالہ ہیرس کو ٹرمپ کے مقابلے میں لانے کے لئے سابقہ صدر اوبامہ اوڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں دن رات ایک کر رہے ہیں جیسے وہ خود الیکشن لڑ رہے ہوں لیکن کمالہ صدر نہیں بن سکینگی۔ ہر امریکن چاہتا ہے امریکہ مضبوط ہو، قانون کی بالاتری ہو ہر کام میرٹ پر ہو لیکن کمالہ ہیرس خود نااہل ہے لہذا اس بات کی توقعہ رکھنا بھول ہے۔ آج پیر٤نومبر2024ہے اور ہم بڑے وثوق سے کہتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ ہی صدر بنیں گے اور آج کے ماحول میں وہ ہی مناسب ہیں۔ امریکہ جتنا آج مسائل میں گھرا ہے کبھی ایسا نہ تھا یہ وہ ہی امریکن جانتے ہیں جو ٹیکس دیتے ہیں اور جن کے پاس ملازمتیں نہیں ہیں۔ ایک اور بات کہتے چلیں کہ ٹرمپ یا کسی بھی صدر کے بدلائو سے امریکہ کی بیرونی پالیسی پر اثر آتا ہے خاص ان ملکوں پر جو امریکہ کے پٹھو ہیں جو بدعنوان حکومت بناتے ہیں اورIMFکے قرضے پر پیسہ ہڑپ کرتے ہیں ان میں پاکستان کا پہلا نمبر ہے جہاں کا کمانڈر انچیف اور حکومت دونوں ناکارہ ہیں انہیں اونے پونے خریدا جاسکتا ہے جو کہنے کو مسلمان ہیں لیکن ان کا دین ایمان سلامت نہیں۔ دوسرے معنوں میں منافق ہیں اول درجے اور یقیناً ٹرمپ کے آنے کے بعد پاکستان کی حکومت بدلے گی۔ جو کہتے ہیں امریکہ کسی حکومت میں دراندازی نہیں کرتا وہ طفل مکتب ہیں امریکہ1903سے یہ کر رہا ہے خاص کر بے ایمان حکومت کے ساتھ او رپاکستان کی حکومت اول درجے کی بے ایمان اور بکائو ہے کہ جتنے کرپٹ لوگ تھے سب کے سب حکومت چلا رہے ہیں۔ لہذا ہم پیشگی مبارکباد دیتے ہیں امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اور پاکستانیوں کو بھی کہ اب حالات بدلینگے ان میں سب سے پہلے غزہ میں جنگ بندی اور یوکرین پر روس کا دبائو کم ہوگا دیکھتے رہیں۔
٭٭٭٭٭