دولت مند
امریکیوں کی ہجرت!!!
امریکیوں کی اکثریت سکون پسند اور انفردی زندگی گزارنے کی قائل ہے جس کا ملکی سیاست ،اقتصادیات سے کوئی لینا دینا نہیں ،وہ اپنے معاملات تک ہی محدود ہیں، ایسے ہی دولت امریکیوں کی بڑی تعداد کرونا کے بعد سے اپنے 20 سے زائد کاروبار کو بیرون ممالک منتقل کر چکی ہے اور اب اپنے صارفین کی ڈیمانڈ اور بزنس انٹرسٹ میں بیرون ممالک ہجرت کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ، امیر گھرانوں کے اٹارنیز اور ایڈوائزرز اور قانونی ماہرین کی رائے میں دولت مند خاندان کی اکثریت بیرون ممالک ہجرت کرنے کی خواہشمند ہے ، امیگریشن اٹارنی کے مطابق دولت مند امریکیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد منگل کے انتخابات سے پہلے ملک چھوڑنے کا منصوبہ بنا رہی ہے، جس میں بہت سے لوگوں کو سیاسی اور سماجی بدامنی کا خدشہ ہے، اس سے قطع نظر کہ کون جیتے گا۔خاندانی دفاتر اور اعلیٰ مالیت والے خاندانوں کے وکیلوں اور مشیروں نے کہا کہ وہ دوسرے پاسپورٹ یا بیرون ملک طویل مدتی رہائش گاہیں تلاش کرنے والے گاہکوں کی ریکارڈ مانگ دیکھ رہے ہیں اگرچہ انتخابات کے بعد بیرون ملک جانے کی باتیں عام ہیں،امیگریشن ماہرین کے مطابق ہم نے اس طرح کی طلب کبھی نہیں دیکھی ہے، جو کہ دولت مندوں کو بین الاقوامی نقل مکانی کے بارے میں مشورہ دیتے ہیں، بیرون ملک جانے کا منصوبہ بنانے والے امریکیوں کی تعداد گزشتہ سال کے مقابلے میں کم از کم 30 فیصد زیادہ ہے۔بیرون ملک ممکنہ نقل و حرکت کے لیے ان کی خدمات حاصل کرنے والے امریکیوں کی تعداد گزشتہ سال کے مقابلے میں تقریباً تین گنا بڑھ گئی ہے۔53 فیصد امریکی کروڑ پتی انتخابات کے بعد امریکہ چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں، کم عمر کروڑ پتیوں کے جانے کا سب سے زیادہ امکان ہے، 18 سے 29 سال کے درمیان 64 فیصد کروڑ پتیوں کا کہنا تھا کہ وہ بیرون ملک رہائش کے لحاظ سے سرمایہ کاری کے پروگرام کے ذریعے نام نہاد گولڈن ویزا حاصل کرنے میں “بہت دلچسپی” رکھتے ہیں۔یہ سچ ہے کہ کووڈـ19 کے بعد سے امیروں میں دوسرے پاسپورٹ یا رہائش میں دلچسپی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ انتہائی امیر لوگ بھی تیزی سے ایک ملک میں شہریت کو ایک مرتکز ذاتی اور مالی خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں جس طرح وہ اپنی سرمایہ کاری کو متنوع بناتے ہیں، اب وہ اپنے ملک کے خطرے سے بچنے کے لیے “پاسپورٹ پورٹ فولیو” بنا رہے ہیں۔اس کے باوجود انتخابات اور سیاسی ماحول میں تیزی آئی ہے اور امیر امریکیوں کی جانب سے بیرون ملک پلان بی پر غور کرنے کے لیے دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے، اس کے امریکی کلائنٹس بنیادی طور پر ٹیکس وجوہات کی بنا پر بیرون ملک جانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اب، یہ سیاست اور تشدد کا خوف ہے،دوسرے لوگ تشدد کے بارے میں فکر مند ہیں اگر ڈونلڈ ٹرمپ ہار جاتے ہیں، یا نائب صدر کملا ہیرس کا 100 ملین ڈالر سے زیادہ مالیت کے غیر حقیقی سرمایہ پر ٹیکس لگانے کا منصوبہ ہے جبکہ ٹیکس تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ غیر حقیقی فوائد کے منصوبے میں کانگریس کے پاس ہونے کا بہت کم امکان ہے۔دولت مند کلاس کی جانب سے ملک چھوڑنے کی بنیادی وجہ بڑے پیمانے پر سکولوں میں فائرنگ، سیاسی تشدد کے امکانات، سام دشمنی، اسلاموفوبیا اور حکومت کے بڑھتے ہوئے قرضے ہیں ۔امریکیوں کے لیے دوسری رہائش کے لیے سرفہرست ممالک میں پرتگال، مالٹا، یونان، سپین اور اینٹیگوا شامل ہیں۔ اٹلی بھی امریکیوں کے لیے مقبول ہو گیا ہے۔امریکیوں اور یورپ کے درمیان محبت کا سلسلہ بہت طویل عرصے سے جاری ہے تاہم، قوانین اور اخراجات تیزی سے بدل رہے ہیں جبکہ بڑے پیمانے پر امیگریشن پوری دنیا میں ایک اہم سیاسی مسئلہ بن گیا ہے، یورپ میں کچھ سیاست دانوں نے گولڈن ویزوں کے خلاف پیچھے ہٹنا شروع کر دیا ہے کیونکہ اس سے لوگوں میں ان کیخلا ف نفرت پروان چڑھ رہی تھی ، حکمرانوں کواب اقتدار میںرہنے کے لیے حب الوطنی کا کارڈ کھیلنا پڑتا ہے ، امریکہ میں لوگوں کو ہجرت سے روکنے کے لیے منتخب حکومت کو ہی اقدامات کرنا ہوں گے ، ملک میں بزنس فرینڈلی ماحول اور پرکشش مواقعوں کو پروان چڑھا کر ہی بزنس اور دولت مند کمیونٹی کو امریکہ میں مستقل قیام کے لیے قائل کیا جا سکتا ہے وگرنہ دیگر یورپی ممالک کی طرح امریکہ میں بھی تارکین کا ایسا سیلاب آئے گا کہ یہ امیگرنٹ ملک بن کر رہ جائے گا ، امریکہ کی کچھ ریاستیں اب بھی امیگرنٹس سٹیٹس حاصل کر چکی ہے جہاں تارکین وطن کی بھرمار ہے ۔اب یہ نئی منتخب کردہ حکومت کی اولین ذمہ داری ہوگی کہ وہ ملک میں تیزی سے کم ہوتے دولت مند افراد کے مستقل قیام کیلئے اقدامات اٹھائیں۔
٭٭٭