کسی زمانے میں پاکستان میں بے روزگاری صرف کم پڑھے لکھے اور غیر ہنر بند افراد کا مسئلہ ہوا کرتا تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔
یوں لگتا ہے کہ جیسے ملک میں کم پڑھے لکھے اور کم ہنر مند افراد تو اس ڈور سے ہی باہر ہو چکے ہیں اور اب روزگار کا حصول بڑے بڑے سیاسی رہنماں، ججز اور فوجی جرنیلوں کے لیے بھی اہم بن کر رہ گیا ہے۔پاکستان میں یہ بڑی حد تک مشہور ہے کہ کوئی بھی فوجی جنرل صرف فوج سے ریٹائرڈ ہوتا ہے روزگار سے نہیں اور اس کے لیے کوئی نہ کوئی ادارہ اپنی چیئرمین شپ یا سربراہی کی کرسی خالی رکھے منتظر ہوتا ہیمگر اب شاید ہر شعبے میں یہ سوچ پروان چڑھ چکی ہے کہ اگر روزگار نہ رہا تو پھر ہمارا کیا بنے گا، کون ہمیں چیف جسٹس صاحب کہے گا یا کون ہمیں آرمی چیف صاحب کے نام سے پکارے گا اور کون ہمیں وزیراعظم صاحب کے نام سے یاد رکھے گا۔ اس لیے اپنے اپنے روزگار پکے کرنے کے لیے آئین و قانون کو کچے دھاگے کی مانند ثابت کیا جا رہا ہے۔ روزگار کو پکا کرنے کے لیے کوئی آئینی ترمیم کرنا پڑے یا کوئی قانون سازی درکار ہو ہمارے ان بے روزگاری کے خوف کے مارے لوگوں کو کوئی فکر نہیں ہے۔سنا کرتے تھے کہ دنیا کے قبرستان قابل ترین لوگوں سے بھرے پڑے ہیں، یہ لوگ صرف نظام کو بہتر بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور نظام کسی نہ کسی طرح اپنا وجود برقرار رکھتا ہے۔حقیقت یہی نظر اتی ہے کہ ہمارے ملک میں چند عہدوں نے خود کو نظام تصور کر لیا ہے اور یہ اس بات پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ ان کے بعد نظام فنا ہو جائے گا۔ اس لیے نظام کا وجود قائم رکھنے کے لیے ان کا وجود برقرار رہنا ضروری ہے۔
مگر شاید یہ لوگ بھول رہے ہیں کہ تاریخ میں جن بابوں کا یہ اضافہ کر رہے ہیں انے والے وقت میں وہی پڑھے جائیں گے۔تاریخ اس بات کی پرواہ نہیں کرے گی کہ اپ کتنے با اختیار تھے، اختیارات کی ضربیں لگا لگا کر اپ نے نظام کی کمر کس طرح توڑی، ملک کی پارلیمنٹ کو آپ نے ربڑ سٹیمپ بنا کر اور سیاست دانوں کو اپنی رنڈی بنا کر کس طرح نظام کو بے آبرو کیا۔ ساری ان سیاست دانوں کو بھی یاد رکھے گی جنہوں نے پارلیمنٹ کو طاقتور حلقوں کے لیے عوامی مفادات کی قانون سازی کے بجائے روزگاری چکلا سازی کے لیے مہیا کرنے پر دل و جان سے کردار ادا کیا۔ہمیں بھولنا نہیں چاہیے کہ روزگار کتنا بھی اعلی کیوں نہ ہو ایک نہ ایک دن اپ کو بے روزگار کر کے چھوڑتا ہے۔
٭٭٭