پنڈورا باکس…آخر کب !!!

0
115
جاوید رانا

ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں ملکی سیاست پر ایک محاورہ اونٹ کے حوالے سے تحریر کیا تھا کہ جس کی کوئی بھی کَل سیدھی نہیں ہوتی اور اُس کی ہیئت سے اُس کی چال تک بے ڈھنگی ہی رہتی ہے، کچھ یہی حال ہمارے ملک کی سیاست اور سیاستدانوں کا بھی ہے۔ آئے دن ایک نیا شوشہ ظہور میں آتا ہے، پھر اس کی حمایت یا مخالفت بلکہ تجدید یا تکذیب کیلئے وہ قلابے ملائے جاتے ہیں جن کا کوئی سر ہوتا ہے نہ پیر، گزشتہ اپریل سے اب تک کے واقعات پر نظر ڈالیں تو ایک جانب ملک میں سیاسی و معاشی عدم استحکام کی بدترین صورت ہر محب وطن کیلئے تشویش اور فکر کا باعث ہے تو دوسری جانب نفرت و عناد حتیٰ کہ دشمنی کا عفریت صرف سیاسی رہنمائوں و جماعتوں میں ہی نہیں عوام بلکہ بیرون ملک پاکستانیوں تک میں زہر کی طرح سرایت کر گیا ہے۔ نوبت اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ را کا کانٹا نکالنے کیلئے جان لینے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ یہی نہیں ایسے ایسے اسکینڈل اور مفروضات سامنے لائے جاتے ہیں جن پر یقین کرنا نا صرف مشکل ہوتا ہے بلکہ ان کی نوعیت و قطعیت پر فریقین کے درمیان بحث و نزاع کا طویل سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ منطقی و قانونی موشگافیوں سے اپنا مؤقف ثابت کرنے اور مخالفین کو جھوٹا قرار دینے کیلئے ہر حد پار کر لی جاتی ہے۔ اس ڈرامہ بازی میں معلقہ فریقوں کے ممدوح میڈیا چینلز خصوصاً سوشل میڈیا، اینکرز اور سپورٹرز تڑکا لگانے کا فریضہ نہایت طمطراق اور قطعیت سے انجام دیتے ہیں۔ گزشتہ کئی ماہ سے جہاں ایک طرف درآمدی حکومت کے تماشے میں طرح طرح کے مؤقف اپنا کر حکومتی اور مخالف سیاسی دھڑوں کے درمیان گھمسان کا رن جاری رہا وہیں اسٹیبلشمنٹ کو بھی نہ بخشا گیا حتیٰ کہ آرمی چیف کی تعیناتی پر بھی ایک ہنگام برپا رہا۔ شنید ہے کہ ہفتہ رواں میں اس ایشو کا واضح نتیجہ سامنے آجائیگا۔ اس نتیجہ کے مابعد اثرات کیا ہونگے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ مبصرین اس حوالے سے متضاد آراء و خدشات کا اظہار کر رہے ہیں، بعض خیالات تو یہ ہیں کہ سیاسی فریقین کے متحارب رویوں سے کہیں سیاسی بساط ہی نہ لپیٹ دی جائے۔ اس خدشے کی بنیاد وہ ڈھکوسلے اور پینڈورا باکس ہیں جو سیاسی حریفوں کی جانب سے سامنے آرہے ہیں۔ کپتان کے اس بیان کے باوجود کہ آرمی چیف کوئی بھی آئے، انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑنا، 26 نومبر کو پنڈی میں عوامی مقبولیت و حمایت کے اظہار کا اعلان اور حقیقی آزادی کی جدوجہد امپورٹڈ حکومت اور اس کے ہینڈلرز سے نجات کا عزم بہت کچھ ظاہر کر رہا ہے تو دوسری جانب پدی نہ پدی کا شوربہ بلاول کی صدر مملکت کو دھمکی اس امر کی نشاندہی ہے کہ آرمی چیف کی تقرری کے باوجود بھی سیاسی استحکام ایک کار دارد ہی ہو سکتا ہے اور غالب امکان یہی ہے کہ نیا آرمی چیف اس سیاسی بھنور میں ملوث نہیں ہونا چاہے گا۔ یہ سب تو اپنی جگہ ہماری اس تحریر کے دوران ہی لندن میں ایک نیا پینڈورا باکس اور کُھل گیا۔ گجرات سے تعلق رکھنے والے نواز لیگ کے لندن میں ترجمان تسنیم حیدر شاہ نے ارشد شریف اور عمران خان کے قتل و حملے کی سازش میں نوازشریف کو ملوث قرار دیا ہے۔
خبر کے مطابق چند روز قبل لندن میں پیٹیا ٹرکے فرینڈز کی چیئرمین طارق محمود نے نوازشریف کے خلاف درخواست دی تھی کہ عمران خان پر حملہ، انہوں نے کروایا تھا، طارق محمود نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ دستاویزی ثبوت کے ساتھ چند وعدہ معاف گواہ بھی پیش کرینگے جو اس اجلاس میں شریک تھے جس میں یہ سازش مرتب کی گئی تھی۔ اتوار کے روز تسنیم حیدر نے جو خود کو 20 سال سے لندن میں ن لیگ کا ترجمان قرار دیتا ہے اور ناصر بٹ کا قریبی ساتھی ہے، طارق محمود کے ہمراہ ایک میڈیا کانفرنس میں انکشاف کیا کہ وہ اس میٹنگ میں موجود تھا جس میں ارشد شریف اور عمران خان کو راستے سے ہٹائے جانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ناصر بٹ نے اس سے شوٹرز مہیا کرنے کیلئے کہا تھا جسے اس نے اس بنیاد پر رد کر دیا تھا کہ وہ سیاسی کردار ادا کرنے کے حق میں ہے اور کسی کو مارنے کے منصوبے میں حصہ بننے کو تیار نہیں ہے۔ اب یہ ایک نیا پینڈورا باکس کھلا ہے اور اس کے رد عمل میں ایک جانب نواز لیگ نے تسنیم حیدر سے قطعی لا تعلقی کا اعلان کیا ہے، نواز لیگ لندن کے صدر نے تسنیم حیدر کو تحریک انصاف کا آلۂ کار قراردیتے ہوئے میڈیا کانفرنس کو ارشد شریف کی شہادت کی تحقیقات کو دھندلائے جانے کا وطیرہ کہا ہے۔ بہر حال ایک نیا پینڈروہ باکس اب کھل چکا ہے اور اس کے سیاسی منظر نامے پر کیا اثرات ہونے ہیں ، آثار یہی ہیں کہ معاملات مزید بگاڑ کی طرف جائیں گے، فواد چودھری نے سپریم کورٹ سے اس معاملے کا نوٹس لینے کی اپیل کر دی ہے۔ نوازشریف کو ڈپلومیٹک پاسپورٹ مل گیا ہے اور ڈپلو میٹک پاسپورٹ ہولڈر کیخلاف مقدمہ برطانوی قوانین سے مبرّاء ہے۔ دوسری جانب آرمی چیف کے خلاف اثاثے بنانے کا پینڈورا باکس کھول دیا گیا ہے۔ اور اسحاق ڈار نے اس معاملے کی انکوائری کا آرڈر دے دیا ہے’گویا آرمی چیف کے خلاف اس الزام کو درست قرار دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
بہر حال یہ ایشو وقت کے ساتھ یقیناً اپنے نتائج دکھا ہی دے گا لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ ارشد شریف کی شہادت اور عمران خان پر حملہ محض اندرونی سیادت و سیاست پر مبنی نہیں بلکہ بعض بیرونی عوامل و محرکات بھی کار فرما ہیں۔ اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کیا جا سکتاکہ ہمارے آرمی چیف کی تقرری و تعیناتی محض ہمارے اندرونی داخلی و سیکیورٹی معاملات کا ہی محض حصہ نہیں بلکہ بیرونی معاملات و تعلقات میں اس کی اہمیت ہے، تعلقات میں بہتری، مالی مفادات و معاہدات میں آرمی چیف کے کردار کو ماضی کے متعدد اقدامات، بیرون ممالک،مالیاتی و عالمی اداروں اور مقتدر و اہم شخصیات سے رابطے و ملاقاتیں اس کی واضح مثال ہیں۔ لہٰذا اس اہم تقرری پر سیاسی ہتھکنڈوں اور پینڈورا باکس کھولنا کسی بھی طرح ملکی مفاد میں نہیں ہو سکتا ہے۔ ہم نے گزشتہ سطور میں اس حوالے سے کپتان کے مؤقف کی نشاندہی کی ہے کہ آرمی چیف کی تقرری پر اسے کوئی مسئلہ نہیں لیکن کیا موجودہ حکومت (امپورٹڈ حکومت) بھی قومی مفاد میں اپنی اغراض سے بالاتر ہو کر ایسا کرنے پر تیار ہے؟ خبر تو یہ ہے کہ مفرور سابق وزیراعظم اب بھی اپنی پسند کے آرمی چیف کی تعیناتی پر اڑے ہوئے ہیں اگر ایسا ہی طرز عمل ہوا اور میرٹ پر عمل نہ ہوا تو مزید پینڈورا باکس نہیں کُھل جائیں گے جو خدانخواستہ مزید عدم استحکام کا باعث بنیں گے، شاعر انقلاب فیض احمد فیض کی 38 ویں برسی پر ہم یہی عرض کر سکتے ہیں!
اک طرز تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک
اک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here