یوں تو ہمارے ہیوسٹن میں بہت ساری این جی اوز ہیں اور بہت سے لوگ چیریٹی کا کام کر رہے ہیں، مگر ہیوسٹن میں ایک نام ایسا بھی ہے جس نے کبھی اپنی تشہیر کا سہارا نہیں لیا اور خاموشی سے ہیوسٹن میں اور پاکستان میں اپنا کام کرتے رہے ہیں، میں نے بہت کوشش کی کہ ان کے کاموں کو اُجاگر کروں لیکن انہوں نے ہمیشہ مجھے منع کر دیا، ہاں البتہ مجھے دعوت ضرور دیتے تھے کہ تم ہمارے ساتھ پاکستان چلو اور وہاں دیکھو کس طرح ہم نے جنگل میں منگل کر دیا ہے لیکن میں نہ جا سکا اب جبکہ وہ اس دنیا میں نہیں رہے تو میں نے ان کے صاحبزادے شاہد پٹیل سے کہا کہ اب مجھے نہ روکو، پچھلے کئی سالوں سے وہ بیمار تھے اور اس بیماری ے ان کی جان لے لی وہ تھے ہمارے دلعزیز جناب احمد پٹیل مرحوم جن کے جنازے میں لگتا تھاکہ پورا ہیوسٹن موجود تھا۔ جمعہ کے دن اس دنیا سے رحلت فرما گئے، ہفتہ کے روز ان کی نماز جنازہ اور تدفین ہوئی ہیوسٹن کے بڑے جنازوں میں سے ایک جنازہ ان کا تھا۔ مرحوم احمد پٹیل 13 مئی 1942ء کو پیدا ہوئے، ان کی والدہ خوش نصیب تھیں جنھوں نے ایسے انسان کوجنم دیا، پیپلزپارٹی کے کارکن تھے، ذوالفقار علی بھٹو کے دیرینہ ساتھی تھے۔ یہ وہ واحد شخص تھے جو ذوالفقار علی بھٹو کے کمرے میں بغیر کسی اجازت کے جا سکتے تھے۔ کراچی میں اپنے فلاحی کاموں کی وجہ سے بہت عزت تھی 1997ء میں ہیوسٹن تشریف لائے تو ان کو اپنے بیٹے عرفان کی ناگہانی موت کا سامنا کرنا پڑا۔ احمد پٹیل ذاتی زندگی میں بڑے ہی ملنسار، ایماندار انسان تھے۔ ساری زندگی انہوں نے غریب لوگوں کی فلاح و بہبود میں گزاری اور مختلف چیریٹیز کی نگرانی خود کرتے تھے۔ ان کے زیادہ تر کام سندھ کے دیہاتوں میں غریبوں کی امداد، سینکڑوں لوگوں کی شادیاں کروائیں، پورا جہیز کا سامان دیا، سندھ میں ہندو آبادیوں میں بھی کام کیا ان کے کام اور ایمانداری کو دیکھتے ہوئے سینکڑوں کی تعداد میں ہندوئوں کو مسلمان کیا۔ پاکستان سے بہتر مستقبل حاصل کرنے والوں کو لائے اور ان کو سیٹ کیا۔ پیر پٹھا میں حضرت جمیل شاہ داتارگرناری کے مزار کے پاس پہلی مسجد بنوائی ،اس کے علاوہ بہت ساری مساجد سندھ کے دیہی علاقوں میں تعمیر کروائیں۔ غریب لوگوں کے دستر خوان کا انتظام کیا جو مستقل چل رہا ہے، سندھ کے نواحی علاقوں میں اسکول قائم کئے تاکہ غریبوں کے بچے اچھی تعلیم حاصل کر سکیں اور معاشرے میں اپنا مقام بنا سکیں۔ ان کو وڈیروں کی طرف سے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ ان کو دھمکیاں بھی دی گئیں لیکن ان کی محنت اور لگن کو دیکھتے ہوئے اور غریبوں کے ساتھ محبت کی وجہ سے ان کو سکول بنانے کی اجازت دیدی گئی اور انہوں نے ایک کے بعد ایک اسکول اور یہاں تک کہ کمر کا ہسپتال بھی قائم کر دیا۔ انہوں نے وہاں کا ماحول ہی تبدیل کر دیا جو لوگ وہاں بھیک مانگا کرتے تھے وہ اب کام کر کے اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔ ٹھٹھہ ڈسٹرکٹ اور اس کے قریبی علاقوں کے ان بچوں کو جو کہ یتیم تھے ان کیلئے بہتر رہائش کا بھی انتظام کیا اور وہاں روزانہ کی بنیاد پر لوگوں کو گوشت، گروسری کا سامان مہیا کیا جاتا ہے اور ان کی ٹیم وہاں چوبیس گھنٹے موجود رہتی ہے انہوں نے اس نیک کام میں جو بھی فنڈ آتا ہے اس میں سے ایک ڈالر بھی اپنے لیے یا اپنی فیملی کیلئے نہیں استعمال کیا اور ان کو ہیوسٹن کی برادری آنکھ بند کر کے فنڈز مہیا کرتی ہے جس سے وہاں کام چلتا ہے انہوں نے پورا سسٹم بنا دیا ہے جو کام کر دیا ہے انہوں نے دنیا میں اپنی جنت کما لی ہے ان کے کام ان کی لگن ہی سب سے بڑا انعام ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو جلد بُلا لیتا ہے ویسے بھی جنت میں ان کیلئے اعلیٰ گھر اللہ تعالیٰ نے بنا دیا ہوگا سوگواروں میں انہوں نے دو بیٹے اور ایک بیٹی اور بیوہ چھوڑی ہے نماز جنازہ مسجد النور میں مفتی علامہ قمر الحسن قادری نے پڑھائی۔ المیڈا جنیوا کے قبرستان میں تدفین ہوئی۔ قرآن خوانی مکہ مسجد ڈیرہ آشفورڈ میں ہوئی جس میں تمام مساجد کے علماء اکرام اور لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے کاموں کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاء فرمائے۔ شاہد پٹیل اور ان کی فیملی کو صبر جمیل عطاء فرمائے۔ آمین۔
٭٭٭