کراچی میں مشہور اور جانے پہچانے شخص رضوان صدیقی کا تعارف کروانا ایک کٹھن کام ہے جاننے والوں میں جن میں قمر علی عباس، یونس شرر، مشیر طالب، اور یہاں پر طاہر خان ڈاکٹر شفیق، نیوجرسی کے عامر بیگ، ملک اللہ بخش اور احسن ظہیر شامل ہیں کا تعارف کرانا کہ انسان میں ایک صلاحیت ہو تو آسان کام ہوتا ہے۔ دوستی کے علاوہ لیکن اگر لاتعداد صلاحیتیں ہوں تو مشکل ہوتا ہے اور رضوان صدیقی ہر چند آدھی صدی سے زیادہ میرے دوست رہے ہیں اور آج بھی ان سے فون پر گفتگو رہتی ہے۔ پچھلے ہفتہ جب بات ہو رہی تھی تو میں نے پوچھا اب کیا کر رہے ہو تو جواب نے مجھے چانکا دیا ایک ضخیم کتاب جو پاکستان بننے سے پہلے سے اب تک کے حالات اور دوست احباب اور ان کے ساتھ جو تاریخ ہے لکھ رہا ہوں اور جب معلوم ہوا کہ وہ بارہ سو صفحات پر پھیلی ہوئی ہے کہ رضوان صدیقی تم غلط سمت میں جارہے ہوں۔ پہلی بات یہ خسارے کا سودا ہے اور یہ سوشل میڈیا کا دور ہے لوگوں کے پاس وقت نہیں ہوتا یہ سب باتیں ذہن میں ابھریں لیکن ہم کہہ نہ سکے کہ ممکن ہے کچھ ایسا معجزہ ہوجائے کہ لوگ کتابیں پڑھنا شروع کردیں۔ اس سے پہلے انہوں نے اپنی چھ کتابیں، باری باری نذر کی تھیں۔” ذکر ایک عمرہ کا ایک گائوں کی کہانی”،”آستانے سے پیرس تک” جھیل سیف الملوک اور امریکہ کے بارے میں۔ ”روشن اندھیرے” ذکر ایک عمرہ کا شاید2008میں لکھی گئی تھی اور آج اُسے پڑھیں تو لگتا ہے کہ یہ بہت پرانی بات ہے جب لوگ، پانی کے جہاز اور پھر ہوائی جہاز سے عمرہ اور حج کرنے آتے تھے اور وہاں پر صعوبتیں برداشت کرتے تھے۔ ایجنٹ کی باتوں پر یقین کرکے جس کا ذکر اس کتاب میں جگہ جگہ ہے اور یہ ضروری ہے کہ جس شخص یا بات سے نقصان پہنچے تو دوسروں کو آگاہ کیا جائے اور یہ کوئی برائی نہیں ہے۔ یہ تو عمرہ تھا لوگوں کے ساتھ جو یہاں سے جاتے ہیں ایجنٹ کے ہمراہ بہت دھوکہ ہوتا ہے لیکن اب سعودی حکومت نے یہ کام آسان کردیا ہے اور انٹرنیٹ پر جا کر ویب سائٹ سے آپ سب کچھ کرسکتے ہیں۔ مکہ معظمہ سے مدینہ شریف کا سفر25ستمبر2018میں شروع ہونے والی ہائی اسپیڈ ٹرین سے شروع ہوچکا ہے جو واقعی ہائی اسپیڈ ہے اسکا نام بھی حرمین ہائی اسپیڈ ریلوے ہے جس کی اسپیڈ300کلومیٹر ہے۔ اس کتاب پر سب سے اچھی بات، ڈاکٹر پیزادہ قاسم صدیقی نے لکھی ہے” بے حد معلوماتی، مفید اور پرعقیدت، صحن کعبہ میں نماز کے احوال میں کیا خوب لکھا ہے ”امام کعبہ کی آواز کی شیرینی، قرآن کریم کی آیات کی عظمت، اہل زبان کا لہجہ کھلی فضائوں میں امام کعبہ کی قرآت حرم شریف میں تابعداری سے قدم اٹھانا لگاہیں پہنچی کرتے ہوئے اٹھا کر خانہ کعبہ کا دیکھنا۔ مودب طریقہ سے آگے پیچھے بڑھنا چہ سب اُن کے جزبات کا اظہار اُن کی تحریر میں رچ بس گیا ہے۔ کسی بھی مضر میں اگر جانا ہو تو اکیلے جانا مناسب ہے لیکن یہ عمرہ کی زیارت تھی جس میں کئی جگہوں پر بیگم کی موجودگی مددگار ثابت ہوتی ہے اور یہ بات اس کتاب کے مطالعے سے پتہ چلتی ہے پھر حرم شریف میں جو ابواب ہیں ان کا ذکر اندر باہر ہونے میں ہے جو نشاندہی کے لئے بھی ہیں انکا یہ لکھنا کہ ”حرم شریف کی رونق دینی تھی”۔ عُمرہ کرنے کے لئے پہلے عائشہ مسجد جانا اور اہرام کا پہننا یہ معلوماتی بات ہے اور اس سے خوبصورت نقشہ کیا ہوسکتا ہے” اچانک میں روضہ اطہر کے سامنے سنہری جالیوں کے سامنے آکھڑا ہوا روئے زمین پر اس سے ز یادہ اور کون سی مقدس وتبرک جگہ ہوسکتی ہے۔ ” ایک دل ودماغ کی آواز ہے کہ یہ جگہ ہے جہاں ہمارے رسُول ہیں اور جی چاہتا ہے بوسہ دیں پھر زم زم کی بابت لکھا ہے جس کے ذکر کے بغیر بات ادھوری رہتی ہے چار ہزار سال سے زم زم کا پانی فوارے کو مانند نکل رہا ہے اس کا ذائقہ بدیل نہیں ہوا، کنوئیں میں پودے نہیں اُگے، دیواروں پر کوٹی نہیں جمتی غیر ممالک میں آب زم زم کوLabمیں بھیTESTکیا گیا۔ اور لاکھوں لوگ روزانہ اسے پیتے ہیں پورے سعودی عربیہ میں رضوان صدیقی کی اس کتاب میں بہت سی باتیں ایسی ہیں کہ ان کو پڑھ کر عمرہ کو آسیان بنایا جاسکتا ہے۔
اُن کی دوسری کتاب ملائیشیا میں چند روز ہے۔ جہاں ہم جانے کی سوچتے ہیں لیکن وہاں کا موسم ہمیں راس نہ آئے ذہن میں رکھتے ہوئے آگے بڑھا دیتے ہیں لیکن جب ملائیشیا کے بارے میں اتنا کچھ پڑھا تو ارادہ بنایا کہ جایا جائے اور محمود شام جیسے کہنہ مشق صحافی لکھ دیں۔ رضوان صدیقی بہت تھیں، تین اور جازب نظر شخصیت ہیں لکھتے بھی اچھا ہیں اور بولتے بھی” محمود شام نے دلچسپ طریقہ سے ملائیشیا کا تعارف کرایا ہے جب وہ بینظیر بھٹو کے ساتھ بطور صحافی وہاں گئے تھے ڈاکٹر مہاتیر سے ہاتھ ملانے کی اور دیکھنے کی کی آرزو پوری ہوئی ڈسکو بھی دیکھے۔ مسجدین بھی پہنچانے بھی شاہراہوں پر خواتین اسکرٹ میں بھی نظر آئیں مکمل حجاب میں بھی واحد ایشیائی مسلم ممالک ہے جس نے مغرب کو لکارا بھی اور ترقی کرکے بھی دکھائی جمہوریت بھی ہے اور تقریر وتحریک پر پابندیاں بھی اسی لئے معیشت مستحکم رہی ہے۔ ”میرے خیال میں جن جن لوگوں نے ملائیشیاء کو اس نظر سے دیکھا ہے اس کی تعریف اس سے زیادہ اچھی نہیں ہوسکتی۔ ”شاید قمر علی عباسی نے ملائیشیاء نہیں دیکھا ورنہ وہ جگہ جگہ بے ساختگی سے قہقہے لگواتے چلتے۔ رضوان صدیقی نے جو ملائیشیا دکھایا ہے وہ عام مسافر کی دلچسپی کا باعث ہے مفت میں مختلف شہر اور قصے دکھا رہے ہیں ایئرپورٹ، ہوٹلوں کی تفصیل بازاروں کی رونق زرمبادلہ کی شرح یہ سب رہنمائی کے لئے اہم ہے۔ لگتا ہے رضوان صدیقی مہینوں سے وہاں آباد ہیں رضوان صدیقی، ترتیب سے اپنے سفر کے آغاز کا ذکر خوبصورتی سے کرتے رہے ہیں کہ جان لو یہ کچھ ہوتا ہے نکلتے وقت۔ اور دوسرے ملک میں تھوڑا سا مختلف کہ سکیورٹی سے گزرنا پڑتا ہے جو اب ہر جگہ اس کا ذکر مزاحیہ انداز میں ہے جو اصل ہے۔ سب سے پہلے انہوں نے ایئرہوسٹس کا ذکر کیا ہے جہاز میں اپنی سیٹ پر بیٹھنے کے بعد لکھتے ہیں” ہم نے ان پر زیادہ توجہّ نہیں دی۔ اس لئے کہ ملائیشیا ایئرلائن کی ایرہوسٹیس سرتاپاملبوس تھیں۔” رضوان صدیقی کو ملائیشیا کے بعد لنکاوی جانا ہے جس کے لئے دوسری فلائٹس لینا تھی اور اس طرح وہ لنکاوی پہنچے اور بارونق ایئرپورٹ کا ذکر لکھا ہے ہوٹل سے باہر نکل کر ملائیشیا کی ہریالی، خوبصورت سڑکوں کا ذکر لکھتے ہیں دوکان قدرت میں سبز رنگ کے کتنے مناظر ہیں اس کا اندازہ بھلا کون لگا سکتا ہے ہوٹل کے اطراف کا بغور جائزہ لے کر نقشہ کھینچا ہے کہ تصویر نظر آتی ہے پھر وہاں پرTOVRبک کرانے سے ٹور گائڈواسو کی سنگت میں لنکاوی کو دیکھا جو ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جہاں سڑک کے کنارے کنارے ہوٹلوں کی قطار ہے اس کے بعد برڈ پارک مگرمچھ کا تماشہ تھا یوں کانشیمن اور دوسرا علاقہ پینانگ میں بوٹونیکل گارڈن دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں ایک تفصیل ہے خوابیدہ بڈھا فورٹ کارنیلٹس کو تیار ٹاور، نیگری مسجد کنگ پلس، اسٹیٹ مسجد اور پھر واپسی ”روشن اندھیرے” امریکہ کے سفر پر لکھی گئی کتاب(سفرنامہ ہے) ہے یہاں آکر انہوں نے اقوام متحدہ، فلاڈبلغیا شہر، لانگ بیچ کیلیفورنیا، ہالی وڈ، یونیورسل اسٹوڈیو، ناساسینٹر، لاس ویگاس، واشنگٹن ڈی سی میں ویت نام جنگ کی یادگار میامی وہ سب کچھ دکھایا ہے جو ہم یہاں50سال میں نہ دیکھ سکے”جھیل سیف الملوک” اگر پاکستان جانا ہو تو دیکھنے کی جگہ ہے جہاں جاکر احساس ہوتا ہے کہ حکومت اگر دھیان دے تو ایشیائی سوئزرلینڈ بن سکتا ہے اپنے لوگ اپنے کھانے اپنا ملک کیا بات ہے اور اب ہم رضوان صدیقی کے لئے لکھتے چلیں پاکستان کے معروف افسانہ نگار، سفرنامہ نویس، ڈرامہ نویس ہیں اور انکا لکھا ہوا١٢صفحات کا آگ کا دریا جلد منظر عام پر آنے والا ہے۔ رضوان صدیقیKDAمیں بحیثتPROخدمات انجام دیں۔ اور کوئی بنگلہ، بلڈنگ نہ بناسکے یہ انکی طبیعت میں نہ تھا یوں کہئے کہ ”وہ آخری بے تاج بادشاہ رہے ہیں جنہوں نے پاکستان کی آزادی سے اب تک خدمات کو عبادت جانا ہے۔١٧سال پہلے تک وہ گورننگ باڈی کے ممبر تھے اور سیف الرحمن گرامی سیکرٹری کے ساتھ مل کر آرٹ کونسل کراچی کو، ادیبوں، شعراء اور تعلیم یافتہ لوگوں کی آماجگاہ بنایا۔ کسی ایسے ویسے کو ممبر نہیں بنایا۔ لیکن اُن کے بعد احمد شاہ صاحب نے ممبران کی تعداد جن میں مالدار وڈیرے اور اُن کے احباب تھے کو سینکڑوں کی تعداد میں ممبر بنا کر قبضے کر بیٹھے اور صدر کا عہدہ تاحیات سنبھال لیا۔ ممبر بننے کے لئے کافی رقم درکار ہے کہنا پڑتا ہے کہ اب لوگ وہاں کسی قکش میں آنے کے لئے سفارش استعمال کرتے ہیں۔ لیکن رضوان صدیقی اپنی روش پر قائم ہیں وہ ماہ نو کے ایڈیٹر بھی رہے ہیں وفاقی وزراء کے PROبھی سیرت النبی پر کراچی میں کئی سال تک یہ پروگرام کراتے رہے ہیں۔ لکھنے کو بہت ہے لیکن ان پر لکھنے کے لئے سینکڑوں صفحات درکار ہیں۔
٭٭٭٭٭