صدر ٹرمپ اور عدلیہ آمنے سامنے!!!

0
75
حیدر علی
حیدر علی

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ریپبلکن پارٹی کی حکومت نہ آئی کہ سارے کے سارے اِس کے اراکین صدر مملکت بن گئے ہیں ، اُن کی مرضی میں جو کچھ بھی آتا ہے وہ کردیتے ہیں اور بعد میں جو واقعی میں صدر ہے اُسے خفت اٹھا پڑتا ہے، حقیقت میں جو واقعی میں صدر ہے وہ اپنے آپ کو صدر نہیں بلکہ کِنگ ہونے کا دعوی کرتا ہے، اِس کی بہترین مثال گذشتہ ہفتہ اختتام میں دیکھنے میں آئی!
دو سو غیرقانونی تارکین وطن جن پر امریکی حکومت نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ وہ لاطینو گینگ کے ممبر ، ڈرگ ڈیلرز ، چور اور ڈاکوہیں، اُنہیں تین ہوائی جہاز میں بیٹھا کر اُن کے آبائی وطن السلواڈور بھیجا جارہا تھا، تاہم جج کو یہ شبہ تھا کہ اُن میں سے کچھ صرف سادہ لوح غیر قانونی تارکین وطن ہیں، اِسلئے ایک فیڈرل جج باسبرگ نے یہ فیصلہ دیا کہ ٹرمپ ایڈمنسٹریشن دوران جنگ کے فرسودہ قانون کو پیش رو بنا کر ماؤرا سماعت کسی کو ڈیپورٹ کرنے کی مجاز نہیں اگر کوئی غیر قانونی تارکین وطن سے بھرا طیارہ فضا میں ہے تو اُسے واپس بلا یا جائے لیکن جج کی خواہشات کی تکمیل نہ ہوسکی ۔ وہ تینوں طیارے سپریم کورٹ کی چھتوں کے اوپر سے گزرتے ہوے السلواڈور پہنچ گئے،بعد ازاں سوال یہ پیدا ہوا کہ آیا جج کے حکمنامہ کی خلاف ورزی کی گئی ہے یا نہیں؟ فلائٹ ڈیٹا کے مطابق تینوں طیارے فیڈرل جج کے حکم کے بعد السلواڈور کی سرزمین پر لینڈ کیا تھا حتی کہ ایک طیارہ تو جج کے حکم کے بعد حرکت میں آیا تھا اور ٹیک آف کرنے کا مرتکب ہوا تھا، محض رسمی کاروائی کو مکمل کرنے کیلئے جسٹس ڈیپارٹمنٹ کے ایک وکیل نے یہ دلیل پیش کی کہ وہائٹ ہاؤس نے جج کے حکم کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی تھی، کیونکہ جج کا حکم اُس پیرائے میں نہ تھا جیسا کہ اُسے ہونا چاہیے تھا، عدالتی فیصلہ زبانی جمع خرچ کے نہیں کیا جاسکتا، مزید برآں جج نے اپنے حکم میں یہ نہیں کہا تھا کہ تمام طیاروں کو واپس امریکا لایا جائے، 14مارچ جمعہ کے دِن صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک ایگزیکیٹو آرڈر پر دستخط کرتے ہیں جو دشمن مائیگرنٹس 1798 کے قانون سے اخذ کیا گیا تھا۔ صدر ٹرمپ کے آرڈر کا ہدف السلواڈور کا کریمنل گینگ ٹرین ڈے آراگوا تھا جو بقول صدر کے امریکا پر حملہ کیا تھا یا کرنے والا تھا مارچ 15 سنیچر کے دِن امریکی حکومت نے سرکاری طور پر ایگزیکیٹو آرڈر کو سوشل میڈیا پر پیش کیا، امریکن سول لبرٹریز یونین نے پانچ وینزویلین کی جانب سے اُن کی امیگریشن کی تحویل کے خلاف ایک مقدمہ دائر کیا،ٹرمپ ایڈمنسٹریشن نے با ضابطہ اعلان کیا کہ وہ پانچ زیر تحویل افراد کی روانگی کو موخر کردیا ہے لیکن دوسرے افراد کو حسب معمول بھیجا جارہا ہے، شام کے ساڑھے پانچ بجے زیر تنازع فلائٹ 6143 ہارلنگٹن ٹیکساس سے اپنی منزل وینزویلا کیلئے روانہ ہوگئی، شام کے پونے سات بجے جج باسبرگ نے حکومت کو یہ حکم دیا کہ طیاروں کو واپس امریکا لایا جائے جو اُنہیں بیدخل کرنے کیلئے بھیجا گیا تھا،جج نے ڈیپورٹ ہونے والے افراد کے وکیل کو یہ کہا کہ وہ موکل کو بتادیں کہ اُن کے طیارے کو جو آیا فضا میں ہیں یا روانہ ہونے والے ہیں اُنہیں واپس لایا جارہا ہے جس وقت جج یہ فرمان جاری کر رہے تھے اُس وقت پہلا طیارہ میکسیکو کی فضا میں پرواز کر رہا تھا، جبکہ دوسرا گلف آف میکسیکو کے اوپر تھا اور تیسرا اُس وقت تک ٹیک آف نہیں کیا تھا۔مارچ 16 اتوار کی صبح السلواڈور کے صدر نائب بکلے نے سوشل میڈیاپر پوسٹ کیا کہ بہت دیر ہوچکی ہے،دراصل وہ نیویارک پوسٹ کی سرخی کا حوالہ دے رہے تھے جس میں کہا گیا تھا کہ جج نے اُس طیارے کو جس میں گینگسٹر زواپس جارہے تھے اُسے واپس لانے کا حکم دے دیا ہے، اِس طرح صدر امریکا کا دو صدی پرانے قانون کے استعمال کرنے کا جواز ختم ہوگیا ہے، آٹھ بجے بکلے نے سوشل میڈیا پر ایک تین منٹ کا ویڈیو پوسٹ کیا جس میں یہ دکھایا جارہا تھا کہ ڈیپورٹ ہونے والے افراد کو طیارے سے اتار کر جیل خانہ لے جایا جارہا ہے. اُن کے ہاتھوں اور پیروں میں زنجیریں بندھیں ہوئیں تھیں۔مارچ 17 پیر کے دِن فاکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوے ٹرمپ کے بارڈر زار تھامس ہومین نے اِس قیاس کو مسترد کردیا کہ ٹرمپ ایڈمنسٹریشن نے کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے. اُنہوں نے کہا کہ ” میں اِس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ ججز کیا سوچتے ہیں؟ جج کے حکم دینے سے قبل طیارہ انٹرنیشنل حدود میں تھاجس پر انتہائی خطرناک دہشت گرد سوار تھے. امریکی قوم کو اِس کا جشن منانا چاہیے.وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری کیرولین لاویٹ نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوے کہا کہ وائٹ ہاؤس جج کے صرف تحریری حکم پر عمل کیا جو شام کے سات بجکر چھبیس منٹ پر دیا گیا تھا ، زبانی حکم پر نہیں جو چھ بجکر اڑتالیس منٹ پر دیا گیا تھا،متعدد نامی گرامی افراد جو ڈاکٹر یا پروفیسر ہیں اور جن کے پاس H1-B ویزا ہے اُنہیں امریکا آنے میں سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے. ایک ڈاکٹر راشا علیویھ جو تعلیم و تدریس کی غرض سے امریکا آرہی تھیں اُنہیں بوسٹن کے لوگان ائیر پورٹ سے 13 مارچ کو واپس لبنان بھیج دیا گیا،اُن کے پاس ویلڈ H1-B ویزا تھا، علیویھ کو امریکا کی ایک کمپنی براؤن میڈیسن نے بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر آف میڈیسن کے ملازمت دی تھی۔ ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکورٹی نے ڈاکٹر علیویھ پر یہ الزام لگایا ہے کہ وہ گذشتہ ماہ خصوصی طور پر حسن نصراﷲکے جنازے میں شرکت کیلئے لبنان گئیں تھیں جنہیں امریکی حکومت دہشت گرد قرار دیتی ہے،اِس طرح کے بے شمار افراد نئی حکومت کے بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here