امام احمد رضا اور عربی زبان وادب !!!
عبدالقادر شیبی وہابیوں کے جھانسے میں آکر گورنر کے سامنے سیدی اعلیٰ حضرت کے خلاف زہر فشانی کر رہا تھا تو اس نے اپنے مدعا کو مزید موکد بنانے کے لئے شیخ العلماء سید محمد سعید بابصیل رئیس العلماء مولانا شیخ کمال اور کبیر العلماء مولانا ابوالخیر مرداد جیسے ذی وقار علماء کے اسماء بھی شامل کئے کہ یہ حضرات بھی مولانا احمد رضا کے شانہ بشانہ ہیں۔ گورنر احمد راتب پاشا نے جب مذکورہ مقتدر علماء کے اسماء سنے تو وہ غصّے سے تلملا اُٹھے اور انتہائی غضبناک ہو کر نائب حرم کو طبیعت بھر ایک طمانچہ رسید کیا اور دھتکارتے ہوئے کہا ”یاخبیث ابن الخبیث یاکلب ابن الکلب اذاکان ھولاء معہ فھو یفسد ام یصلح۔ یعنی اے خبیث کے بیٹے، جب ایسے ذیشان ذی مرتبت علماء اس ہندی عالم کے ساتھ ہیں تو وہ فساد عقیدہ کا موجب ہوگا یا اصلاح عقیدہ کا باعث۔ آپ کے کمال عربی زبان وادب کا ذکر چلے اور کنزالایمان فی ترجمہ القرآن کے محاسن کا تذکرہ نہ ہو تو پھر موضوع تشنہ تکمیل رہ جائے گا۔ جس طرح الدولة المکیة بمادة الغیبیہ جیسی معرکة الّاراء اور نادرالمثال کتاب آپ نے بغیر کسی کتاب کی مدد کے فقط ساڑھے آٹھ گھنٹوں کی قلیل مدت میں تحریر فرمائی اسی طرح پورے قرآن مجید کا ترجمعہ بھی آپ نے بغیر کسی کتاب کی مدد کے اپنے تلمیذ ارشد صدر الشریعہ حضرت مولانا امجد علی کو لکھوایا۔ یعنی ترجمے کا انداز یہ تھا کہ حضرت صدر الشریعہ آیت کی تلاوت کرتے جاتے اور آپ فی البدیہہ اس کا ترجمہ بولتے جاتے۔ حضرت شدر الشریعہ فرماتے ہیں کہ جب میں اور علمائ( جو اس محفل میں حاضر رہتے تھے) ترجمہ کے بعد کتب تفاسیر دیکھتے تو ہمیں بے حد حیرانی ہوتی تھی کہ آپ کا ترجمہ عین مستندومعتبر مشہور زمانہ تفاسیر کی کتابوں کے عین مطابق ہوتا۔ آپ کا ترجمہ قرآن مسمّٰی بہ ”کنزالایمان” یقینا جہاں آپ کے بے پایاں علم وفن کا برملا اعلان کر رہا ہے۔ وہیں آپ کے کمال عربی زبان وادب پر مہر تصدیق ثبت کر رہا ہے۔ آپ کے نایاب ترجمہ قرآن سے متعلق حضرت مولانا بدرالدین قادری اپنی تصنیف لطیف ”سوانح اعلیٰ حضرت” میں یوں رقم طراز ہیں۔
٭٭٭