کالم کا آغاز ماہ مقدس رمضان المبارک کی تکمیل اور اظہار تشکر کے طور پر عید سعید کی تہہ دل سے مبارکباد اور دعائیں کہ رب کائنات تمام مسلمین و مسلمات کی عبادتوں، ریاضتوں کومقبول و مبرور فرمائے، آمین۔ اس حقیقت میں کوئی شُبہ نہیں کہ ماہ رمضان مسلم اُمہ کیلئے مقدس ترین و مسلم اُمہ کی یکجہتی و تزکیہ نفس کا مہینہ ہے جس میں شیطان کو قید کر دیا جاتا ہے، ارشاد ربانی ہے کہ ابن آدم کی عبادات و اعمال کا ذمہ اس پر ہے تاہم روزے کا فرض میرے لئے ہے اور اس کا اجر میں ہی دیتا ہوں۔ گویا ہر فرزند توحید کیلئے فرض ہے کہ اس ماہ مقدس میں مساویانہ و یکجہتی کا عمل اختیار کرے اور تکمیل رمضان پر اس حوالے سے تشکر کے اظہار کے طور پر اظہار و تشکر و بندگی کرے۔ عید الفطر اسی اظہار کا سبب ہے، عید سعید کا یہ اہم موقع بھی دیگر امور زندگی کے مطابق اب یکجہتی و یگانگت کے برعکس اب روئیت کے حوالے سے نزاع اور تقسیم و تفریق کی صورت کے حوالے سے اور کبھی قومیت کے حوالے سے عید ایک ہیر وز کرنے کا فریضہ منقسم کر دیا جاتا ہے۔پاکستان میں تو دو عیدوں کا جھگڑا ہم اپنے بچپن سے دیکھتے آئے تھے کہ سرکاری روئیت کے اعلان پر ملک بھر میں ایک ہی روز عید منائی جاتی تھی لیکن صوبہ سرحد میں ملا پوپلزئی کے اعلان پر کبھی ایک دن قبل یا ایک دن بعد عید منائی جاتی تھی، اس طرح دو عیدیں ہوتی تھیں۔ حیرت کی بات ہے کہ اس بار یہ تماشہ پوپلزئی کی جگہ اے این پی نے لگایا اور سعودی عرب کی روئیت و عید کی آڑ میں ایک دن قبل عید منانے کا (اتوار) کو اعلان کر دیا، واضح رہے کہ پاکستان میں روئیت کے مطابق اتوار کو 29 رمضان کی تاریخ تھی۔ ہم نے سطور بالا میں عرض کیا ہے کہ دیگر امور حیات کی طرح اب عید بلکہ دینی امور میں بھی نزاعی و تقسیم کا سلسلہ نظر آتا ہے اور امت مسلمہ بٹی نظر آتی ہے۔ ہماری اس عرضداشت کے تناظر میں یہاں امریکہ میں بھی گزشتہ کئی برسوں سے یہی حالات سامنے نظر آتے رہے ہیں اور فقہی بنیادوں پر عید دو دنوں میں ہوتی رہی ہے۔ اس بار بھی دو عیدوں کی کہانی دہرائی گئی ہے اور ریاست الی نائے سمیت کئی ریاستوں میں عید الفطر کی نمازیں دو دن ادا کی گئیں۔ تیس رمضان (ہفتہ) کی شب شکاگو ہلال کمیٹی اور روئیت ہلال کمیٹی آف نارتھ امریکہ کے چاند نظر نہ آنے کے واضح اعلان کے باوجود یہاں الی نائے کی بعض مساجد میں نماز عید ادا کی گئی جبکہ شکاگو سمیت ریاست کی 70فیصدجگہوں پرپیر کے روز نماز ادا کی گئی اور عید منائی گئی۔ سوال یہ ہے کہ دو دن عید کے اعلان و ادائیگی کے سبب ملت اسلامیہ کا دیگر مذاہب کے لوگوں یا کمیونٹیز میں جو مذاق اڑایا گیا وہ اپنی جگہ، اگر چاند نظر آچکا تھا تو جن لوگوں نے 30 واں روزہ رکھا اس کی ذمہ داری نمازیوں پر آتی ہے یا اعلان کرنے والی انتظامیہ اور مولویوں پر آتی ہے۔ اسی طرح اگر روئیت کے اداروں کے اعلان کے باوجود جن لوگوں نے ایک دن قبل عید منائی ان کے اس عمل کی ذمہ داری کس پر جائیگی۔ اس طرح ہر دو صورتوں میں عذاب و نافرمانی کے مرتکب نمازی تو ذمہ دار نہیں ٹھہرائے جا سکتے۔روایت ہے کہ عید کے روز شیطان قید سے آزادی کی خوشی میں روزہ رکھتا ہے تو اس حوالے سے کس کو شیطان کا چیلا کہا جا سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ ایک جملہ معترضہ ہو لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ معاشرے کے دیگر شعبوں کی طرح دینی معاملات اور مسلم امہ کے اتحاد و یکجہتی میں بھی غرض و مفادات کے ٹھیکیداروں کے روئیے نہ صرف دیگر مذاہب و کمیونٹی کیلئے شرمندگی و مذاق کا سبب بن گئے ہیں بلکہ نئی نسل کی دین سے دوری کا بھی حوالہ بن رہے ہیں۔ دیگر مذاہب کے مذہبی ایام عیسوی کیلینڈر کے حساب سے منائے جاتے اور ایک ہی روز یا تاریخ کو ہوتے ہیں ہم قمری حوالے سے چاند کی روئیت پر انحصار کرتے اور جھگڑتے ہیں وہ بھی رمضان وعیدین کے مواقع پر باقی مہینوں میں کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ دنیا اس قدر ترقی کر چکی ہے کہ کائنات کا ہر لمحہ دنوں، ہفتوں، مہینوں نہیں برسوں پہلے آشکار ہو جاتا ہے لیکن ہمارے مذہبی ذمہ دار امراض چشم کے ساتھ دوربینوں کے محتاج ہی رہتے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ ملت اسلامیہ کا انتشار صرف حالیہ رمضان و عیدین تک نہیں ہوتا۔ او آئی سی سے لے کر سیاسی، معاشرتی، معاشی، غرض ہر حوالے سے اتحاد، اخوت اور باہمی رفاقت، خود غرضی، مفاد اور لالچ کے گرداب میں ڈوبا ہوا ہے اور اس کا نتیجہ سوائے ذلت، رسوائی کے کچھ نہیں ہے۔ علامہ اقبال نے درست فرمایا تھا۔
دین کافر فکر وتدبیر وجہاد
دین ملافی سبیل اللہ فساد
٭٭٭٭