پاکستانی سیاستدان ملکی مفاد کیلئے کم اور ذاتی مفاد کیلیے زیادہ سوچتے ہیں اور اسی سوچ نے ملک کو اس نہج پر پہنچایا ہوا ہے کہ اب ہم بیرونی قرضوں کیلیے بھی خوش ہوتے ہیں۔ چلیے مان لیتے ہیں کہ پاکستان کو کورونا کی وجہ سے معاشی بدحالی کا سامنا کرنا پڑا، لیکن اس سے پہلے جو تیس ہزار ارب قرضہ لیا تھا وہ کیوں لیا تھا؟ قرض تو انسان اس بنیاد پر لیتا ہے کہ شاید اچھے دن آجائیں تو اس قرض کو چکتا کیا جائے گا۔ اور پھر وہ اپنے حالات بدلنے کیلیے دن رات محنت کرتا ہے، خون پسینہ بہاتا ہے اور پھر کہیں جاکر وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکے۔ مگر ہم تو قرض پر قرض لیتے جارہے ہیں اور ملک میں بدحالی بڑھتی جارہی ہے۔ چند خاندان امیر سے امیر تر ہورہے ہیں اور عوام غریب سے غریب تر ہورہے ہیں۔ ہم تو بس قرض کیلیے انتظار کرتے ہیں اور جیسے ہی قرض مل جاتا ہے تو ہم اس کو ہڑپ کرجاتے ہیں، یہ نہیں سوچتے کہ کل اس کی ادائیگی بھی کرنی ہے۔ پاکستان اس وقت مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ چند ماہ پہلے تو ہم دیوالیہ ہونے کے قریب تھے۔ یہاں بھی سری لنکا جیسے حالات پیدا ہونے والے تھے۔ مگر موجودہ حکومت نے مہنگائی کے ذریعے اس حالت پر کچھ نہ کچھ قابو پالیا۔ پاکستان پر بیرونی قرضوں کا بوجھ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔ اب بھی روزانہ کی بنیاد پر وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل ہمیں خوش خبری سناتے ہیں کہ ہم آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے تک پہنچ چکے ہیں۔ یعنی ان کے خیال میں یہ عوام کیلیے بہت بڑی خوشخبری ہے۔ مگر نہ حکمران اور نہ ہی عوام یہ سوچتے ہیں کہ اگر آئی ایم ایف نے نیا قرضہ دے دیا تو پھر اس کی بھی ادائیگی کرنی ہے۔ پاکستان میں بے انتہا کرپشن ہے۔ ہر ادارے، ہر محکمے میں کرپشن ہورہی ہے۔ کوئی منصوبہ ایسا نہیں جس میں کرپشن نہ ہورہی ہو۔ ہم کوئی ایسا پروگرام ہم بناتے ہی نہیں جس میں کرپشن کا موقع نہ ہو۔ ہماری ساری توجہ اس بات پر مرکوز رہتی ہے کہ کیسے ملکی خزانے کو لوٹا جائے۔ جو بھی منصوبہ بنتا ہے اس میں سب سے پہلے کرپشن کا موقع تلاش کرنا ہوتا ہے۔ کرپشن کے اس گھنانے کام میں سیاستدانوں سمیت بیوروکریسی بھی پوری طرح ملوث ہے۔ مملکت خداداد میں چپڑاسی سے لے کر وزیراعظم تک کسی کا دامن صاف نہیں۔ ممبران قومی وصوبائی اسمبلی کا کام قانون سازی اور پالیسی سازی ہے، مگر یہاں تو کلاس فور بھرتیاں بھی وزار اور ممبران قومی و صوبائی اسمبلی اپنا استحقاق سمجھتے ہیں اور گزشتہ کئی ادوار سے اس ضمن میں الزامات لگائے جاتے ہیں کہ ممبران اسمبلی اور اعلی افسران سرکاری نوکریوں میں بھی مال بٹورتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارا ہر منصوبہ صرف کرپشن کے خیال سے شروع کیا جاتا ہے، خواہ وہ اسکول بنانا ہو یا اسپتال بنانا۔ ہر غلط کام کی روک تھام ممکن ہے مگر اس کیلیے خلوص سب سے اولین شرط ہے۔ہر محکمے کے افسر اعلی کیلیے بھی سخت قانون بنایا جائے کہ اگر اس کے محکمے میں چپڑاسی نے بھی رشوت یا کرپشن کی تو آپ کو بھی سزا بھگتنی ہوگی۔ سخت قوانین بنائے جائیں تو ناممکن نہیں ہے کہ ملک کے حالات ٹھیک نہ ہوجائیں مگر اس کے لیے موجودہ نظام بدلنا ہوگا۔ ہمارے ملک میں مخلص لوگوں کو آگے آنا ہوگا، اس کے بعد ہی ہمارا ملک حقیقی جمہوری اور فلاحی ریاست کے طرف قدم بڑھا سکتا ہے۔ ترقیاتی کاموں کے حوالے سے پالیسی بدلنا ہوگی۔ ممبران اسمبلی اپنے ووٹرز کو خوش کرنے اور اپنی کرپشن کیلیے راستہ ڈھونڈتے ہیں اور ایسے ترقیاتی منصوبے شروع کرتے ہیں جس پر ملک کا کثیر سرمایہ خرچ ہوجاتا ہے مگر اس سے کسی فرد واحد کو تو شاید فائدہ ہو مگر مجموعی طور پر اس سے ملک و قوم کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ تمام ترقیاتی منصوبے متعلقہ محکموں کے ذریعے کرانے چاہئیں۔ اسی وجہ سے ہمارے اکثر منصوبے ناقص میٹریل سے بنتے ہیں اور نااہل افراد سرکاری نوکریوں پر قابض ہوجاتے ہیں۔ جس سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ کیونکہ اکثر منصوبے چند سال بعد ناکارہ ہوجاتے ہیں اور ان کو دوبارہ بنانا پڑتا ہے اور نااہل افراد جو کہ اکثر رشوت دے کر بھرتی ہوتے ہیں وہ اپنی پوسٹ پر براجمان ہوتے ہی کرپشن اور رشوت خوری کی اس بہتی گنگا خود بھی شامل ہوجاتا ہے۔
٭٭٭