75 سال ہونے کو آرہے ہیں اور ہم ابھی تک ایک قوم نہیں بن سکے، ہمارے اندر سے تعصب کا بیج جو بویا گیا تھا ابھی تک ختم نہیں ہوا۔ صوبائیت ہمارے اندر بھری ہوئی ہے اور دشمن اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے اور ہمیں آپس میں لڑواتا ہے اور کبھی ایک قوم نہیں بننے دیتا اور ہم اس کی چالوں میں پھنس جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم دنیا کے آگے ہاتھ پھیلانے پرمجبور ہیں اور ہم کھڑے نہیں ہو سکے۔ پنجابی کو پٹھان سے سندھی کو مہاجر سے، بلوچوں کو پنجابی سے لڑوانا ہی ہمارا پیشہ بن گیا ہے اور ابھی تک ہم اسی چکی میں پِس رہے ہیں۔ کبھی مذہبی تعصب کبھی زبان کا تعصب دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور ہم ابھی تک انہی چکروں میں پڑے ہوئے ہیں۔ میرا اس کالم کو لکھنے کا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں ہے مگر اس ذہنیت کو اُجاگر کرنا چاہ رہا ہوں جو ہماری سندھ ٹیکنیکل بورڈ کے مطالعہ پاکستان کے پرچے میں طلباء سے یہ سوال پوچھا گیا ہے کہ مہاجرین کے آنے سے کیا مسائل پیدا ہوئے جو لوگ پڑھے لکھے ہیں وہ جانتے ہیں کہ مہاجروں نے قربانی کے علاوہ بھی بہت کچھ اس پاکستان کو دیا ہے اس لیے جواب دینا بھی ضروری ہو گیا ہے، سوشل میڈیا پر جسن ے بھی جواب دیا ہے وہ قابل ستائش ہے اور اس نے جن کو معلوم نہیں ہے ان کی خدمت میں جو تجزیہ پیش کیا ہے وہ میں پیش کر رہا ہوں سب سے پہلا مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ ہماری ایک دن کی نیند خراب ہو گئی کیوں کہ مہاجروں نے صبح ہمیں اُٹھا کر بتایا کہ میاں اُٹھ جائو آج سے تم آزادہو نیا ملک پاکستان بن گیا ہے ،سو رہے تھے صبح اُٹھے تو پاکستان بن گیا کس نے قربانیاں دیں یہ وہ لوگ تھے جو اس وقت ہندوستان میں تھے جن میں صرف مہاجر ہی نہیں تھے باقی ہماری تمام قومیتوں کے لوگ تھے وہاں اپنی اپنی جائیدادیں چھوڑ کر آئے تھے۔ قربانیاں دے کر آئے تھے جن مہاجر کہا گیا لیکن یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ صرف اُردو بولنے والے ہی کو مہاجر کہا جاتا ہے جبکہ جسن ے بھی ہجرت کی وہ مہاجر ہے۔ پھر تھوڑے ہوش میں آئے تو پتہ چلا کہ سن آف سوائل کو صدیوں سے جاری انگریزوں،سکھوں اور ہندوئوں کی غلامی سے آزاد کروا دیا ہے۔ جب پاکستان بن گیا تو پتہ چلا کہ پیسے نہیں ہیں تو 3 مہاجروں نے کئی سال تک سرکاری ملازمین کی کروڑوں روپے کی تنخواہیں بھی اپنی جیب سے ادا کیں۔ کچھ عرصے کے بعد پتہ چلا کہ ملک چلانے کیلئے قابل افسران ہی موجود نہیں ہیں حکومت وقت نے اخبارات میں اشتہارات چلائے اور 850 قابل افسران پاکستان آئے جنہوں نے ملک سنبھالا اور اس کو ترقی پر گامزن کیا اس وقت جی ڈی پی 7.8 فیصد تھی اور کوئی IMF کا لون بھی نہیں تھا یہ بھی مسئلہ تھا کہ ان افسران کو ہندوسان سے پاکستان کیسے لایا جائے یہ مسئلہ بھی ایک مہاجر جس کا نام ابو الحسن اصفہانی تھا وہ اپنے جہاز اورینٹ ایئرویز میں بٹھا کر پاکستان لائے جسے آج آپ پی آئی اے کے نام سے جانتے ہیں۔ پھر جب 71ء میں سن آف سوائل بھٹو نے قائداعظم کا ملک توڑا تو پھر ایک مسئلہ آگیا کہ میاں باقی کا ملک کیسے بچائیں پھر ایک مہاجر ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایٹم بم بنا کر ملک بچایا جبکہ بعد میں اس کو بھی غدار قرار دیا گیا۔ پھر ملک چلانے کیلئے خزانہ کیسے بھرا جائے تو مہاجر، صنعتکاروں، بزنس مینوں، دکانداروں نے 70 فیصد ریونیو قومی خزانے میں دینا شروع کر دیا جس سے 22 کروڑ فرزند زمین پل رہے ہیں اب بھی اگرہم ہوش کے ناخن نہیں لیں گے اور ایک دوسرے پر الزامات اور تہمتیں لگاتے رہیں گے تو ایک دن کیا ہوگا ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے ہمیں فراغ دل سے ایک دوسرے کی قُربانیوں کو قبول کرنا ہوگا۔ سندھ میں اگر اسی طرح ہوتا رہا اور سوالات اُٹھائے جاتے رہے تو وہ وقت دور نہیں کہ ہم اور بٹ جائینگے اس لئے مہاجروں اور سندھیوں کی بقاء اسی میں ہے کہ ایک دوسرے کی عزت کریں پچھلے دنوں پیپلزپارٹی کے ایک سینیٹر آئے تھے وہ بھی یہی کہہ رہے تھے جس طرح سندھ میں باہر سے لوگ آ کر بس رہے ہیں اور ہم آپس میں لڑ رہے ہیں تو وہ دن دور نہیں جب سندھ پر بھی قبضہ ہو جائیگا۔ پنجاب کے پی کے اور بلوچستان کو کوئی فرق نہیں پڑے گا صرف سندھ ہی ایک ایسا صوبہ ہے جہاں سندھی مہاجر میں اتفاق نہیں ہے یہ باتیں نہیں کرنا چاہئیں کہ مہاجر کے آنے سے کیا مسائل پیدا ہوئے۔ مسائل پیدا نہیں ہوئے بلکہ مسائل مل جل کر حل کیے گئے جبکہ سندھ میں ہی رہنا ہے نہ تو مہاجر سندھ سے جائیگا اور نہ ہی سندھی تو پھر یہ نفرتیں ختم کرنا پڑیں گی ایکد وسرے کو گلے لگانا ہی ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے اور طعنہ زنی کا کلچر ختم کرنا پڑے گا۔ اور ایک قوم بن کر سب سے پہلے پاکستان اس میں ہی ہماری بقاء اور سلامتی ہے۔ پاکستان زندہ باد۔
٭٭٭