جیو کا ڈرامہ رونے پر اُکساتا ہے!!!

0
312
حیدر علی
حیدر علی

ایک عام قیاس جو لوگوں کے دماغ کو دیمک کے کیڑے کی طرح چاٹ رہا ہے کہ صرف بچے ہی روتے ہیںاور بالغان ارض وطن صرف قہقہہ مارنے کو اپنا وطیرہ بنایا ہوا ہے، یہی وجہ ہے اُن ملکوں کی گوشماری کہ کہاں کے لوگ سب سے زیادہ روتے ہیں تو اُس ضمن میں بالغان حضرات کو یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے ، اور صرف بچوں کی گوشماری کی گئی ہے ، جس میں امریکا، برطانیہ اور اٹلی کے بچوں کو رونے کے لحاظ سے دنیا بھر میں سب سے آگے پیش کیا گیا ہے، ہمارے وطن کے بچے تو صرف مسکراتے یا ہنستے رہتے ہیں، خصوصی طور پر جب کوئی لڑکا کسی لڑکی کو دیکھتا ہے۔ لیکن معاف کیجئے گا یہ نتیجہ حتمی نہیں ، کیونکہ ہمارا دعوی ہے کہ رونے کے لحاظ سے اگر اندازہ لگایا جائے تو پاکستان دنیا کے سارے ملکوں کو پیچھے چھوڑ دے گا، اب آپ پاکستانی چینلوں پر نشر ہونے والے ڈراموں ہی کو دیکھ لیں، آپ جس چینل کو گھمائیں وہاں کوئی روتا ہوا ہی نظر آئیگا، آپ ڈرامہ دیکھنے کیلئے ٹی وی آن کرتے ہیں تاکہ دنیاوی جھمیلے سے آپ کو کچھ مہلت مل سکے ، لیکن ٹی وی کے اسکرین پر تو قیامت کا سماں ہوتا ہے، آپ اے آر وائی پر چلنے والا ڈرامہ ”بے نام ”دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں، آپ کی نظر اُن دو لڑکیوں پر مرکوز ہوجاتی ہے جو مسلسل رو رہیں ہوتیں ہیں پھر وقفہ شروع ہوجاتا ہے جس میں 50 سے زائد کمرشل یکے بعد دیگر آپ کے دماغ کو ماؤف کردیتا ہے۔بہرکیف آپ سوچتے ہیں کہ وقفہ کے درمیان شاید وہ لڑکیاں رونا بند کر دیاہوگا ، لیکن افسوس ایسا نہیں ہوتا ، وہ لڑکیاں نہ صرف رو رہیں ہوتیں ، بلکہ اُن کے ساتھ ایک اور خاتون بھی شامل ہو جاتی ہیں، آپ ” بے نام ” دیکھنے کے بجائے جیو چینل پر ”بد ذات ” دیکھنا شروع کر دیتے ہیں، اُس میں بھی رونے کا سین نمودار ہوجاتا ہے، آپ پھر اِس تذبذب میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ آخر پاکستانی ٹی وی پر چلنے والے سارے ڈرامے کا نام حرف ‘ب ‘ سے کیوں شروع ہوتا ہے مثلا”بے نام ، بد ذات ، بے وفا، بساط، بادشاہ بیگم اور بچھو وغیرہ وغیرہ۔مجھے بچھو کے نام سے کچھ حیرت ہوتی ہے اور میں اِس وسوسے میں مبتلا ہوگیا کہ اگر پاکستانی ڈراموں کا نام بچھو، سانپ اور کچوا ہونا شروع ہوگیا تو پھر کہانی میں بھی ٹارزن کے کردار کو پیش کیا جانے لگے گا۔ بڑی بی کہنے پر مجبور ہو جائینگی کہ جھاڑو پھیرو اِن ڈراموں پراور اب ایک نیا سلسلہ میرے ہمنشیں ، میرے ہم سفر، میرے قرضدار دوست، میرے محلے کے مولوی وغیرہ وغیرہ ناموں کا شروع ہوگیا ہے۔ لیکن ایمانداری سے اِس بات کا تجزیہ کیا جائے کہ آیا پاکستان کی قوم رونے والی ہے یا قہقہہ لگانے والی میں نے تو ورلڈ کپ کے فائنل میں دیکھا ہے کہ پاکستان کی ٹیم آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست کھا جاتی ہے لیکن سٹیڈیم میں پاکستانی قہقہہ مار رہے تھے اور اُسی شہر لاہور میں آپ نے دیکھا ہوگا کہ شیر دی پنجاب دودھ اور جلیبی کھا کر ایسا زوردار قہقہہ مارتے ہیں کہ اُس کی گونج سرحد پار کرکے امرتسر تک پہنچ جاتی ہے اور وہاں کے باسی یہ سوچتے ہیں کہ اے کاش وہ بھی لاہور میں ہوتے،لاہور میں تو کوئی
شخص ہنستا ہوا یا قہقہہ مارتا ہوا نظر نہیں آتا تو دوسرے لوگ اُسے حیرت سے دیکھتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ اوئے کیا ہو گیا ہے؟ کیا بھینس چوری ہوگئی ہے؟ تو وہ شخص جواب دیتا ہے، نہیں جی کراچی سے بھائی کی کال آئی ہے کہ وہ آرہا ہے، وہ نہ ہی ہنستا ہے اور نہ ہی قہقہہ مارتا ہے،ٹھیک ہے کراچی والوں میں ہنسنے یا مسکرانے کا کچھ فقدان ہے، سائیں سے کسی کام کے کروانے کی التجا کرینگے تو وہ فورا”ہی اپنی نظر نیچا کہہ کر یہ کہہ دیگا کہ پانچ لاکھ لگیں گے۔ہنسنا ، مسکرانا یا قہقہہ مارنا تو دور کی بات لیکن وہاں کے کسی عام شخص کو

دس ہزار روپے کی پیشکش بھی کرینگے تو بھی وہ قہقہہ نہیں مارے گا، وہ یہی عذر پیش کرے گا کہ بس میں سفر کرتے وہ بہت تھک چکا ہے، وہ رو سکتا ہے لیکن ہنس یا مسکرا نہیں سکتا، کراچی کے ایک فارمیسی اسٹورکے
مالک سے جب میں نے یہ پوچھا تھا کہ جناب ! میں نے آپ کو کبھی مسکراتے ہوے نہیں دیکھا ہے ؟ تو
اُس نے جواب دیا کہ اُسے شبہ ہے کہ میں انکم ٹیکس کے محکمہ میں ملازم ہوں، پشاور کے کسی باسی کا قہقہہ مارنا خطرے سے خالی نہیں، کیونکہ وہ قہقہہ اُسی وقت مارتے ہیں جب وہ کسی کو گولی مارچکے ہوتے ہیں۔
اِس امر میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ پاکستان کے چینلوں پر چلنے والے 80 فیصد ڈراموں میں لڑکیوں یا عورتوں کو صرف روتے ہوے پیش کیا جاتا ہے جس سے غیر ملکوں میں مقیم پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی خواتین کو کوئی کام کاج نہیں ماسوائے اِس کے کہ وہ روتی ہی رہیں لیکن وہ رونے کے علاوہ ایک اور کام جانتی ہیں، وہ ہے ایک دوسرے سے لڑنا، جھگڑنا، لڑتے وقت تو وہ ایک دوسرے کے بالوں کو نوچنا شروع کر دیتیں ہیںجو صرف پاکستانی چینلز کا خاصہ ہے، ورنہ دنیا جہاں کی فلموں یا ڈراموں میں عورتیں جوڈوکراٹے کا مظاہرہ کرتیں ہیں اور ناظرین کو مرعوب کردیتں ہیں،مختصرا”
عرض یہ ہے کہ پاکستانی ڈراموں میں انقلابی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے، کسی کردار کو پیش کرنے سے قبل اِس بات کا اندازہ لگانا ضروری ہے کہ اِس کا ناظرین ٹی وی پر کیا اثر پڑیگا۔
بلاشبہ چند مزاحیہ ڈرامے جن میں شاہ رخ کی سالیاں اور چوہدری اینڈ سنز بھی حاضر خدمت ہوئے ہیںجن کی جتنی بھی تعریفیں کی جائیں کم ہیں، ایک اور خاص بات جو پاکستانی ڈراموں کے ناظرین شدت سے محسوس کرتے ہیں کہ بعض اچھے ڈراموں کی چند قسطیں دکھانے کے بعد اُسے غیر معینہ مدت کیلئے معطل کردیا جاتا ہے، لوگوں کا کہنا ہے کہ چینل مالی دشواری کا شکار ہوگیا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here