جس ملک کی حکومت کسی زمانے میں ساری دنیا میں پھیلی ہوئی تھی اور کہا جاتا تھا کہ برطانوی راج میں سورج نہیں ڈوبتا ” اب وہ راج خود اپنے ملک میں مالی اخلاقی اور سیاسی انحطاط کا شکار ہے۔ آج اس جمہوری ملک میں ایک غیر منتخب بدیسی کئی دیسوں میں سے ہجرت کرتے ہوئے اس کا خاندان برطانیہ پہنچا تھا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ دراصل ان کا خاندان سندھ سے تعلق رکھتا تھا جو بعد میں راجستان چلے گئے اسلئے انکو ہندوستانی اور گجراتی کہا جاتا ہے۔ برطانیہ آنے سے پہلے برطانوی وزیراعظم کا خاندان تنزانیہ اور کینیا میں کاروبار کرتا رہا ہے۔ ان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ پہلے ہندوستانی نسل سے تعلق رکھنے والے برطانوی وزیراعظم ہیں۔ جس ملک نے دو سو سال تک ہندوستان پر راج کیا آج اس ملک کا وزیراعظم دراصل ہندوستانی نسل سے تعلق رکھتا ہے۔ سفید فام برطانیہ کے لئے اس بات کو ہضم کرنا مشکل ہے۔ کووڈ کی بیماری نے جہاں کئی ملکوں کو معاشی حالات کو تباہ کیا وہاں برطانیہ بھی بچ نہ سکا۔ اور کئی کاروباری ادارے بند ہوگئے۔ دیوالیہ ہوگئے روشنیوں کا شہر لندن بھی اجڑتا گیا اور اس سال میں کوئی سفید فام رہنما وزارت اعظمیٰ کے مسند پر بیٹھنے کو تیار نہیں تھا ، برطانوی معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی تھی ایسے میں ایک ہندوستانی سیاستدان نے اپنے پرانے آقائوں کو اپنا کاندھا پیش کیا اور قدامت پسندConservatineپارٹی نے بادشاہ چارلس کو رشی سوناک کا نام بھیجا اور مجبوراً اس ملک کے سیاسی نظام نے ایک رنگدار شخص کو و زیراعظم تسلیم کیا۔ یاد رہے کہ یورپی اتحادBrexitسے علیحدگی برطانیہ کے لئے مہنگی پڑی جس سے معیشت کو بڑا جھٹکا لگا۔ اس صدی کا ایک غلط فیصلہ تھا ابھی اس جھٹکے سے برطانیہ بڑی مشکل سے کل رہا تھا کہ کووڈ کے معاشی صدمہ کا شکار برطانیہ معاشی طور پر تقریباً تنہا ہوگیا اور ماسوائے امریکا کے کوئی ہمدرد نہیں رہا۔ حالانکہ کووڈ میں امریکا کے چھوٹے تاجران نے بھی شدید نقصان اٹھایا کئی سمال بزنس بند ہوگئے۔ لیکن امریکا کووڈ میں سے ایک بڑی معاشی اور عالمی طاقت ہونے کی وجہ سے نکل آیا لیکن برطانیہ اس دلدل میں مزید دھنستا چلا گیا اور ابھی تک سنبھل نہیں پایا۔ برطانوی وزیراعظم قربانی کا بکرا بنا ہوا ہے۔ اسے الزام تراشی کا سامنا ہے2009سے انکی بیوی بننے والی خاتون ہندوستان کے ایک امیر ترین خاندانوں میں سے ایک ہیں جن کا کاروبار بھی ہندوستان میں ہے۔ شہریت برطانوی ہونے کے باوجود برطانیہ میں ٹیکس نہیں ادا کرتیں حالانکہ ہندوستان میں مورثی خاندان کا ایک بڑا کاروبار انکی ملکیت میں شامل ہے۔ اور رشی سونک کے مخالفین اس بات کو خوب اچھال رہیں ہیں۔ دن بدن ان کی معاشی پالیسیوں کو بھی ناکام گردان کر انہیں اس عہدہ سے الگ کرنے کے درپے ہیں۔ مالیات کے علاوہ کئی اور محکمہ جات بھی رشی سونک کے حوالے ہیں۔ رشی سونک پر ایک اور الزام ہے کہ وہ کسی عہدہ پر بھی منتخب نہیں ہوئے بلکہ ان کی تقرری قدامت پرست جماعت کنزرویٹو پارٹی نے یہی کی ہے۔ ایک پرانی مغربی جمہوریت2022سے ایک غیر منتخب رنگدار وزیراعظم چلا رہا ہے۔ اس بات پر بھی جمہوری برطانیہ نہایت خفیہ اور بدظن ہے۔ آسان زبان میں برطانوی حکومت کا سربراہ ایک غیر منتخب شخص ہے جس نے کبھی کسی عہدہ کے لئے انتخابات کا سامنا نہیں کیا یعنی یہ برطانیہ کا انور کاکڑ ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا برطانوی آئین میں اس کی اجازت ہے کہ اکثریتی جماعت جسے چاہے حکومتی عہدہ پر مقرر کرسکتی ہے۔ اسی گنجائش کا فائدہ لیتے ہوئے ان کی تقرری کی منظوری کنگ چارلس نے دیدی ہے۔ برلیکسٹ کے یورپی الحاق کو چھوڑ کر اسی جماعت نے برطانیہ کو پہلا رنگدار ہندوستانی نسل کے شخص کو برطانیہ کا وزیراعظم بنا کر برطانوی سفید فام لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکا ہے جس کی وجہ سے حزب اختلاف کی نشستوں پر براجمان لیبرپارٹی کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اور ماہرین سیاست کا خیال ہے کہ اگلے انتخابات میں لیبر پارٹی کی جیت نوشہ دیوار ہے۔ برطانیہ میں ترک وطن کرکے بسنے والے پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ خاص طور پر لندن، مانچسٹر، برمنگھم بریڈ فورڈ، شیفیلڈ اور ویکفیلڈ نارتھ ہمپئن میں بڑی تعداد میرے میزبان چودھری افتخار اور انکے فرزندان ندیم اور ناظم میرپور آزادکشمیر سے کئی دہایاں پہلے نقل مکانی کرکے سناتھمپئنNORTHAMRIONمیں آکر آباد ہوئے تھے۔ مجھے انکی میزبانی اور انکے فارم ہائوس میں رہائش کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ جہاں کا ماحول نہایت خوشگوار ہے یہاں پر انہوں نے دو گھوڑوں، مرغیوں اور دو درمن شیپرڈ بھی پالے ہوئے ہیں۔ چودھری افتخار صاحب یہاں کی مقامی حکومت کے کئی عہدوں پر منتخب ہونے کی سعادت بھی رکھتے ہیں۔ وہ بھی نارتھیپمئن کے میئر رہے ہیں حال ہی میں انکے صاحبزادے بھی اس شہر کے میئر کے عہدے پر انتخاب لڑ کر کامیاب ہوئے ہیں۔ تارکین وطن پاکستانیوں کا برطانوی مقامی سیاست میں متحرک ہونا بڑی خوش آئند بات ہے۔ بڑھتی ہوئی پاکستانی تارکین وطن کی تعداد سے محسوس ہوتا ہے کہ بتدریج برطانیہ کی پارلیمنٹ میں بھی ایک اچھی تعداد پاکستانی تارکین وطن نظر آئینگے۔ صادق خان کا لندن میں دو مرتبہ میئر منتخب ہونا پاکستانی کمیونٹی کیلئے ایک اعزاز تھا لیکن اس کے ساتھ معاشی حالات کی خرابی کی وجہ سے پاکستانی تارکین وطن کے کاروباری طبقہ کو کافی نقصان اٹھانے پڑے ہیں۔ آنے والے وقت میں حالات امید ہے کہ بہتر ہونگے(انشاء اللہ)۔
٭٭٭٭٭